برطانوی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام

117 کے مقابلے میں 200 اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 13 دسمبر 2018 08:57

برطانوی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 13 دسمبر۔2018ء) برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے اپنی ہی جماعت کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے پیش کردہ عدم اعتماد کی درخواست کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہی ہیں اور انھیں 117 کے مقابلے میں 200 اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے. برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شمار کے بعد وزیراعظم کے دفتر ٹین ڈاﺅننگ سٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان میں انہوں نے لوگوں کے ووٹ سے منظور شدہ بریگزیٹ پر عملدرآمد کا عہد کیا.

انہوں نے کہاکہ اپنے خلاف ووٹ کرانے والے اراکانِ پارلیمان کے خدشات کو سنا ہے اور یورپی یونین کے اجلاس میں بریگزٹ معاہدے میں تبدیلیوں کے لیے کوشش کریں گی.

(جاری ہے)

مسز مے نے اعتماد کا ووٹ 83 ووٹوں کی برتری سے حاصل کیا‘ 63 فیصد کنزرویٹو پارٹی کے ارکان نے ان کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 37 فیصد نے ان کی مخالفت کی. ان کی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے 48 اراکین نے ان کی قیادت کو چیلنج کرتے ہوئے ان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی درخواست دے دی تھی.

1922 کمیٹی کے نام سے معروف کنزرویٹو پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرپرسن سر گراہم بریڈی کو کنزرویٹو پارٹی کے 48 ارکانِ پارلیمان سے خط ملے جس میں ٹریزا مے کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی درخواست کی گئی. پارٹی کے قوانین کے مطابق اگر پارٹی کے 15 فیصد اراکین چیئرپرسن سے درخواست کریں تو پارٹی کے سربراہ کے خلاف ووٹنگ کی جا سکتی ہے. اس سے پہلے گزشتہ روز اپنی رہائش گاہ 10 ڈاﺅننگ سٹریٹ کے باہر خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اپنی قیادت کو چیلنج کیے جانے کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کریں گی.

انہوں نے کہاتھا کہ کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کو اس وقت تبدیل کرنا ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے‘ نئے لیڈر کے پاس بریگزٹ کے معاملے پر گفتگو کرنے کے لیے وقت نہیں ہوگا اور ان کے قیادت سنبھالنے کے بعد پہلا کام آرٹیکل 50 کو بڑھانے یا واپس لینے کے بارے میں ہو گا. انہوں نے مزید کہا ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑنے سے ہم صرف اپنے درمیان مزید دراڑیں پیدا کر رہے ہیں ایک ایسے موقعے پر جب ہمیں اپنے ملک کی خاطر متحد رہنا ہوگا.

ٹریزا مے کی قیادت کو کیے جانے والا یہ چیلنج اسی طرح کا چیلنج ہے جیسا کہ آج سے 28 سال قبل نومبر 1990 میں سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی قیادت کو ان کی سیاسی جماعت کی حامیوں نے مائیکل ہیسلٹائن کی قیادت میں چیلنج کیا تھااور اس کے نتیجے میں جان میجر کنزرویٹو پہلے پارٹی کے سربراہ اور پھر وزیراعظم بنے تھے. برطانیہ کی جانب سے جون 2016 میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد ٹریزا مے نے جولائی 2016 میں برطانیہ کی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا تھا لیکن انھیں بریگزٹ کے حوالے سے کیے جانے والے منصوبوں پر شدید تنقید کا سامنا رہا ہے.

واضح رہے کہ گذشتہ روز برطانیہ اور یورپین یونین کے درمیان بریگزیٹ معاہدے کی برطانوی پارلیمنٹ سے توثیق کرنے کے لیے ووٹنگ ہونا تھی لیکن وزیرِ اعظم نے ووٹنگ موخر کر دی اور تاحال ووٹنگ کے لیے کسی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا. اس سے پہلے حکمران جماعت کے درجنوں ارکان بریگزٹ معاہدے کی مخالفت کا اعلان کر چکے تھے‘ اگر ایسی صورت میں اس پر پارلیمان میں ووٹنگ ہوتی تو لیبر، سکاٹش نیشنل پارٹی، اور لبرل ڈیموکریٹس کامیاب ہو جاتے.

لیبر پارٹی نے پہلے ہی سے اعلان کر رکھا تھا کہ اگر بریگزٹ معاہدے پر ٹریزا مے کو شکست ہوئی تو وہ دارالعوام میں ان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی تحریک لائیں گے. اگرچہ ٹوری پارٹی میں بغاوت کی وجہ سے کئی لوگ کہہ رہے تھے کہ ووٹنگ ملتوی کر دی جائے گی لیکن پیر کی صبح تک وزیرِ اعظم مے اور ان کے ساتھی کا کہنا تھا کہ وہ ہر حال میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ کرائیں گے.

کنزرویٹو پارٹی کی 1922 کمیٹی پہلے وقت کا تعین کرتی ہے جس کے بعد ٹوری پارٹی کے ممبران جماعت سے دو اراکین کو چنتے ہیں جن کو بقیہ پارٹی ووٹ کرتی ہے. ووٹنگ کے سلسلے کے بعد سب سے کم رینکنگ والا فرد باہر ہو جاتا ہے اور آخر میں دو لوگ رہ جاتے ہیں. اس موقع پر پارٹی فاتح کے لیے ووٹنگ کرتی ہے‘ آخری دو ممبران اپنے اپنے حق میں بقیہ اراکین کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے ہیں جو کہ ووٹنگ کی ڈیڈ لائن سے قبل کیا جاتا ہے. اگر اس موقع پر صرف ایک امیدوار ہو تو شخص پارٹی کی قیادت سنبھال لیتا ہے اور اسے ووٹنگ کی ضرورت نہیں ہوتی.