سپریم کورٹ نے پاکپتن اراضی کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دے دی

تین رکنی جے آئی ٹی کے سربراہ خالد داد لک ہوں گے جب کہ تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی اور آئی بی کا ایک ایک رکن بھی شامل ہو گا

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعرات 13 دسمبر 2018 10:57

سپریم کورٹ نے پاکپتن اراضی کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دے دی
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔13 دسمبر2018ء) سپریم کورٹ نے پاکپتن مزار اراضی کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دے دی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالت کی طرف سے تشکیل دی گئی تین رکنی جے آئی ٹی کے سربراہ خالد داد لک ہوں گے جب کہ تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی اور آئی بی کا ایک ایک رکن بھی شامل ہو گا۔عدالت نے گذشتہ سماعت میں نواز شریف کو طلب کیا تھا اور ان سے پوچھا تھا کہ تحقیق جے آئی ٹی سے کرائیں ،ایف آئی اے یا پھر دیگر اداروں سے ، تو نواز شریف نے کہا تھا کہ میرا جے آئی ٹی کا تجربہ اچھا نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے سربراہ خالد داد لالک جو جے آئی ٹی کے ٹرمز اینڈ ریفرنسز 27دسمبر تک پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پاکپتن میں دربار اراضی کیس میں 1985 میں بطور وزیراعلیٰ ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

(جاری ہے)

نواز شریف پر 1985 میں بطور وزیراعلیٰ محکمہ اوقاف کی زمین واپسی کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا الزام ہے۔

عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کا جواب مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ وہ خود آکر وضاحت دیں جس کے بعدواز شریف نے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کہاں ہیں نوازشریف جس پر سابق وزیراعظم نواز شریف کمرہ عدالت میں روسٹرم پر آئے۔ چیف جسٹس نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ وزیراعظم پاکستان تھے ،ْآپ کے بہت سے فیصلے ہمارے سامنے آئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عطا الحق قاسمی کے معاملے میں بھی یہی ہوا، فواد حسن فواد نے بتایا کہ وزیراعظم سے منظوری لی، کیا آپ کے سیکرٹری نے زمین ڈی نوٹیفائی کی اس پر نواز شریف نے عدالت کو بتایا کہ جس بات پر آپ کو حیرت ہے مجھے بھی حیرت ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے پاکپتن دربار کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کے معاملے پر نواز شریف کے تحریری جواب پر ان کا موقف طلب کیا۔

سابق وزیراعظمنواز شریف نے جواب دیا کہ یہ 32 سال پرانا واقعہ ہے اور میرے علم میں ایسا کچھ نہیں ہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو کیس کا پس منظر بتاتا ہوں، محکمہ اوقاف کی زمین کے دعوے داروں نے کیس کیا اور ہائیکورٹ نے بھی قرار دیا کہ زمین محکمہ اوقاف کی ہے۔ چیف جسٹس نے نواز شریف کو مخاطب کرکے ریمارکس دیئے کہ مقامی عدالت نے فیصلہ کر دیا تو آپ کے پاس بطور وزیراعلیٰ ڈی نوٹیفیکیشن کا اختیار نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو نوٹیفیکشن نہیں سمری منظور کرنی تھی، تاثر یہی ملے گا کہ آپ کی منظوری سے نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس سمری آئی ہوگی، پرنسپل سیکرٹری وزیراعلیٰ پنجاب جاوید بخاری نے لکھا وزیراعلیٰ کو دکھا کر دستخط کیے گئے۔ جس پر نواز شریف نے جواب دیا کہ ریکارڈ پر ایسا کوئی آرڈر نہیں جو میں نے جاری کیا ہو۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا محکمہ اوقاف کیساتھ فراڈ ہوا ہی نواز شریف نے جواب دیا کہ نوٹیفیکشن کا نمبر غلط ہونے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جاوید بخاری حیات ہیں جس پر نواز شریفنے جواب دیا کہ جی جاوید بخاری حیات ہیں۔ نواز شریف نے موقف اختیار کیا کہ میرا خیال ہے کہ نچلے لیول پر کوئی گڑبڑ ہوئی ہے، شاید سیکریٹری اوقاف نے اختیارات کے تحت 1971کے نوٹیفیکیشن کو ڈی نوٹیفائی کیا۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکریٹری اوقاف کی ایسی کوئی پاورز نہیں ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایسی چیز آگئی ہے، جس کی تحقیق کی ضرورت ہے،کوئی ایسا طریقہ بتادیں جس پر آپ بھی متفق ہوں۔