امریکی صدر کے سابق وکیل کو 3 سال کی قید سزا سنادی گئی

ڈونلڈ ٹرمپ کے گندے اعمال پر پردہ ڈالنا میری ڈیوٹی تھی ،ْ مائیکل کوہن کا جج کے سامنے اعتراف

جمعرات 13 دسمبر 2018 12:57

امریکی صدر کے سابق وکیل کو 3 سال کی قید سزا سنادی گئی
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 دسمبر2018ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق وکیل مائیکل کوہن کو ٹرمپ سے تعلقات کا دعویٰ کرنے والی 2 خواتین کو خاموش کرانے کیلئے رشوت دینے سمیت کئی جرائم پر 3 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق مائیکل کوہن نے امریکی ضلعی عدالت میں جج ولیم ایچ پولی کے سامنے اعتراف کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے گندے اعمال پر پردہ ڈالنا میری ڈیوٹی تھی۔

ٹرمپ کے سابق وکیل 52 سالہ مائیکل کوہن نے کہا کہ وہ اپنے ذاتی اور ان جرائم کی ذمہ داری لیتے ہیں جس میں امریکا کے صدر ملوث تھے۔کوہن کے وکیل نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کو جیل نہ بھیجا جائے کیونکہ انہوں نے ٹیکس سے بچنے، ایک مالی ادارے کے حوالے سے جھوٹا بیان دینے، غیر قانونی مہم چلانے اور کانگریس کے سامنے جھوٹا بیان دینے کا اعتراف کیا ہے اس لیے جیل نہ بھیجا جائے۔

(جاری ہے)

جج ولیم ایچ پولی نے کہا کہ کوہن کو بحیثیت ایک وکیل کے اپنے عمل کا ‘اچھی طرح علم ہونا چاہیے تھا۔جج نے انہیں مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنادی۔جج کا کہنا تھا کہ کیس میں شامل ہر جرم قابل ضمانت سزا ہے، جو ذاتی لالچ اور ارادے سے کیے گئے۔سزا سننے سے قبل کوہن نے عدالت میں کہا کہ آج کا دن وہ دن ہے کہ میں اپنی آزادی واپس حاصل کر رہا ہوں۔

کوہن نے کہا کہ جب سے میں نے رئیل اسٹیٹ شہنشاہ کی پیش کش قبول کی اس وقت سے میں ذاتی اور ذہنی قید میں مبتلا تھا۔ٹرمپ کے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘میری کمزوری ڈونلڈ ٹرمپ کا آنکھیں بند کرکے وفادار رہنا تھی۔یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 دسمبر کو اپنی ٹویٹ میں کانگریس کے سامنے جھوٹ بولنے پر اپنے سابق وکیل مائیکل کوہن کو ’طویل عرصے تک قید‘ میں رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ مائیکل کوہن امریکی صدر کے قریبی ساتھی اور ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے ایک تھے، تاہم گزشتہ ہفتے انہوں نے ماسکو میں ٹرمپ ٹاور پر ماسکو کی طاقتور شخصیات کے ساتھ رابطے کے بارے میں اپنی گواہی میں جھوٹ بولنے کا اعتراف کیا تھا۔مائیکل کوہن نے اعتراف کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صدر کے لیے ریپبلکن کی نامزدگی حاصل کرنے کے بعد وہ 2016 کی پہلی ششماہی کے درمیان ان رابطوں میں رہے، جس میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن بھی شامل تھے۔