پاکستان نے 6 ماہ میں 3 ہزار ٹوئٹر اکاؤنٹس رپورٹ کیے

رواں سال جنوری سے جون تک حکومت نے 246 اکاؤنٹس اور 3 ہزار 4 پروفائلز رپورٹ کی تھیں ،ْ ششماہی رپورٹ حکومت کی جانب سے بڑی تعداد میں اکاؤنٹس کو نفرت انگیز مواد پھیلانے اور تشدد پر ابھارنے والے اکاؤنٹس رپورٹ کیے گئے تھے ،ْوزیر اطلاعات

جمعہ 14 دسمبر 2018 15:30

کراچی/اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 دسمبر2018ء) پاکستانی حکام کی جانب سے ٹوئٹر کو مبینہ طور پر ’نفرت آمیز مواد پھیلانے‘ اور ’تشدد پر ابھارنے‘ کے الزامات پر رواں سال کی آخری ششماہی میں 3 ہزار اکاؤنٹس رپورٹ کیے گئے۔گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کی جانب سے جاری ہونے والی ششماہی رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری سے جون تک حکومت نے 246 اکاؤنٹس اور 3 ہزار 4 پروفائلز رپورٹ کی تھیں۔

مخصوص پروفائلز کی بات کی جائے تو ٹوئٹر نے اپنے ٹرمز آف سروسز (ٹی او ایس) کی خلاف ورزی پر 141 اکاؤنٹس کی جانب سے شیئر کیے گئے کچھ مواد کو ہٹایا تھا ،ْگزشتہ سال جولائی سے دسمبر کے دوران پاکستانی حکام کی جانب سے 674 اکاؤنٹس رپورٹ کیے گئے تھے۔حیرت انگیز طور پر گزشتہ سال کے برعکس جہاں تمام درخواستیں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھیجی گئی تھیں، رواں سال 3 درخواستیں عدالتی احکامات پر بھی بھیجی گئیں۔

(جاری ہے)

اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے پاکستان نے 22 درخواستیں بھیجیں اور 54 کی نشاندہی کی جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد بالترتیب 24 اور 25 رہی تھی تاہم ٹوئٹر نے تمام اکاؤنٹس کی معلومات حاصل کرنے کے لیے یا ہٹانے کے لیے دی گئی درخواستیں مسترد کردیں۔حکومت کی جانب سے رپورٹ کیے گئے مواد پر کارروائی نہ کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے ٹوئٹر نے کہا کہ ہمیں پاکستانی حکومت کی جانب سے پری وینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پی ای سی ای) کی خلاف ورزی کے حوالے سے 79 ٹوئٹس کو ہتانے کے مطالبات موصول ہوئے ،ْان میں سے زیادہ تر ٹوئٹس توہین مذہب (گستاخانہ خاکوں) پر مشتمل تھے، رپورٹ کیے گئے یہ ٹوئٹس ہماری ٹی او ایس کے خلاف نہیں تھے، اس لیے ہم نے کوئی کارروائی نہیں کی‘۔

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی ای) کے ڈائریکٹر جنرل برائے انٹرنیٹ پالیسی نثار احمد کے مطابق اگر ہم بھارت اور دیگر ممالک سے ٹوئٹر کا تعاون دیکھا جائے تو ٹوئٹر نے ان حکام کو مثبت جوابات دیے ہیں تاہم جہاں بات پاکستان کی ہو، ٹوئٹر ریاست کا مفاد نہیں دیکھتا۔انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں صرف پی ٹی اے کو ٹوئٹر کو رپورٹ کرنے کا اختیار حاصل ہے جبکہ عوام کے علاوہ ایف آئی اے، قانون نافذ کرنے والے اداروں، وزارتوں اور تمام صوبوں کی وزارت داخلہ کی جانب سے ہمیں 30 درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔

واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں حکام نے حکومتی درخواستوں پر عمل در آمد نہ کرنے پر پاکستان میں ٹوئٹر کو بند کرنے کا عندیہ دیا تھا۔اس حوالے سے نثار احمد نے بتایا کہ ٹوئٹر کو چاہیے کہ جیسے فیس بک ہماری پروپیگنڈا کی جڑوں کو کاٹنے میں مدد کرتا ہے ،ْویسے ہی پاکستان کے قانون کے مطابق ہماری درخواستوں پر عمل در آمد کرے۔نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے وزارت اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ٹوئٹر کی رپورٹ نے حقیقت عیاں کردی ہے ،ْ حکومت کی جانب سے بڑی تعداد میں اکاؤنٹس کو نفرت انگیز مواد پھیلانے اور تشدد پر ابھارنے والے اکاؤنٹس رپورٹ کیے گئے تھے۔

انہوںنے کہاکہ ہم نے تحریک لبیک پاکستان کے دھرنوں کے دوران بھی تشدد پر ابھارنے والے کئی اکاؤنٹس رپورٹ کیے تھے۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کیلئے بین الاقوامی ریگولیٹری باڈی کے ہونے پر زور دیتے ہوئے انہوںنے کہاکہ حکومت سوشل میڈیا کمپنیوں سے بات کر رہی ہے تاکہ ایسا کوئی میکانزم تیار کیا جاسکے۔انہوں نے بتایا کہ میرے حال ہی میں برطانیہ کے دورے کے دوران ہمیں فیس بک اور ٹوئٹر سے مثبت جواب ملا تھا اور مزید مذاکرات جاری ہیں۔