عالمی موسمیاتی کانفرنس میں اہم ترین رپورٹ کی شمولیت روک دی گئی

گرین ہاؤس گیسوں کا اندھا دھند اخراج سیارہ زمین میں گرمی کی وجہ بن رہا ہے، رپورٹ کانفرنس آف پارٹیز 24 میں آئی پی سی سی رپورٹ 2015 کے کئی مندرجات پر بااثر ممالک کا اعتراض

جمعہ 14 دسمبر 2018 15:50

کیتو ویتسی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 دسمبر2018ء) گزشتہ ایک ہفتے سے زائد جاری رہنے والی آب و ہوا (کلائمٹ چینج) میں تبدیلی پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں اس وقت عجیب و غریب موڑ دیکھا گیا جب چند بااثر ممالک نے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے کی ایک اہم رپورٹ کو کانفرنس کا حصہ بننے سے روک دیا۔موسمیاتی ماہرین، سائنسداں اور دیگر تنظیموں سے وابستہ افراد اس وقت شدید حیرانی اور صدمے سے دوچار ہوئے جب پولینڈ کے شہرکیتو ویتسے میں منعقدہ اس سیارے کی بقا کے لیے منعقدہ سب سے اہم ’کانفرنس آف پارٹیز 24 ‘ یا سی او پی 24 میں امریکا، روس، سعودی عرب اور کویت نے سال 2015 میں تیار کی جانے والی اس رپورٹ کو کانفرنس کا حصہ بنانے سے انکار کردیا اور بعض ممالک نے اس کے متن کو تبدیل کرنے پر بھی زور دیا۔

(جاری ہے)

یہ رپورٹ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ’بین الحکومتی پینل برائے آب و ہوا میں تبدیلی‘ یعنی IPCC سے وابستہ سینکڑوں اداروں کے ہزاروں ماہرین نے دن رات کی محنت سے تیار کی تھی۔ اس رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اندھا دھند اخراج سیارہ زمین میں گرمی کی وجہ بن رہا ہے اور اگر عالمی اوسط درجہ حرارت 1.5 درجے سینٹی گریڈ بھی بڑھ جاتا ہے تو اس کرہ ارض کے کم و بیش ہر نظام پر سنگین منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن پھر بھی اس صدی کے اختتام تک ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ میں اضافے پر ہی روک لگانے پر زور دیا گیا تھا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دنیا اپنی ڈگر سے ہٹ چکی ہے اور اس صدی کے اختتام تک ڈیڑھ سیںٹی گریڈ کی بجائے ہم تین درجے سینٹی گریڈ اضافے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اور اگر اسے نہ روکا گیا تو انسانی تہذیب کے ہر شعبے پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اس رپورٹ میں تجویز دی گئی تھی اس صدی تک عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو اگر ڈیڑھ سینٹی گریڈ تک ہی رکھنا ہے تو اگلے 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے عالمی اخراج میں 45 فیصد تک کمی کرنا ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ کی مخالفت ان ممالک نے کی ہے جو خود ان گیسوں کے اخراج کے بڑے ذمے دار ہیں۔بااثر ممالک کے اس رویے سے ماہرین بہت مایوس ہوئے ہیں کیونکہ اسی رپورٹ کی بنا پر کانفرنس کے اختتام پر قابلِ حصول اہداف کا تعین ہوگا اور ہر ملک اپنی اپنی ذمے داریوں کا اعلان بھی کرے گا۔ لیکن اس واقعے کے بعد یہ کانفرنس کسی نتیجے کے بغیر ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔سعودی عرب نے رپورٹ کے متن پر اعتراض کیا تو دیگر ممالک اور مندوبین نے انہیں ایک قابلِ قبول جملوں کا مشورہ بھی دیا ہے۔ تاہم اس ضمن میں مزید مشاورت اور گفت و شنید جاری ہے۔ تاہم بعض ماہرین نے اس کیفیت کو ممکنہ تاریخی ناکامی سے بھی تعبیرکیا ہے۔