احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف دائر نیب ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی

جمعہ 14 دسمبر 2018 16:53

احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف دائر نیب ریفرنس ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 دسمبر2018ء) احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف دائر نیب ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی ۔جمعہ کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے سماعت کی ۔اس موقع پر سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے ۔سماعت کے موقع پر وکیل صفائی خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس میں حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ محمد نوازشریف پر الزام ہے کہ وہ تمام کمپنیوں کے اصل مالک ہیں ، چارج شیٹ میں الزام لگایا گیا کہ نوازشریف کے بچے بے نامی دار ہیں ، 2001ء میں حسین نواز 28 اور حسن نواز 25 سال کے تھے ، چارج شیٹ کے مطابق حسن نواز 1989_90 اور 1994_95 میں والد کے زیر کفالت تھے ، فلیگ شپ انوسٹمنٹ 2002 ء میں حسن نواز نے قائم کی ۔

فاضل جج محمد ارشد ملک نے کہا کہ فلیگ شپ اور العزیزیہ کے قیام میں فرق صرف اپریل اور مئی کا ہے ۔

(جاری ہے)

خواجہ حارث نے کہا کہ کیس میں ظاہر کمپنیوں میں سے صرف کیپٹل ایف زیڈ ای میں محمد نوازشریف کا نام ہے ، کیپٹل ایف زیڈ ای 2001 ء میں قائم ہوئی لیکن نوازشریف نے کمپنی کے نام پر 2006 ء میں ویزہ لیا، سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی نوازشریف کے پاسپورٹ کی کاپی پر دبئی کا ویزہ ظاہر ہے ، پاسپورٹ پر موجود ویزہ پر چیئرمین کیپٹل ایف زیڈ ای بھی ظاہر ہے ، 2008_09 میں کیپٹل ایف زیڈ ای سے کوئینٹ پیڈنگٹن کو 6لاکھ 15ہزار پاؤنڈ کا قرض دیا گیا ، 2009_10 ء میں حسن نواز نے چوہدری شوگر ملز کو 8کروڑ 73 لاکھ کا قرض دیا ، چارج شیٹ کے مطابق 2012_13 ء میں حسن نواز نے مریم نواز کو 8 لاکھ پاؤنڈ تحفے میں دیئے، چارج شیٹ کے مطابق نوازشریف کو فلیگ شپ انوسٹمنٹ سے کوئی رقم نہیں بھیجی گئی۔

فاضل جج محمد ارشد ملک نے کہا کہ کیس تو یہ ہے کہ پیسہ خاندان کے افراد کے درمیان گھومتا رہا ، فلیگ شپ کی فرد جرم میں بھی کہا گیا کہ آپ نے بیٹوں کے نام بے نامی جائیداد بنائی ،فلیگ شپ سرمایا کاری کے وقت حسن نواز اور حسین نواز بالغ تھے ، فرد جرم میں بھی کہا گیا کہ حسن نواز 1989ء سے 1994ء تک والد کے زیر کفالت تھے ، فرد جرم میں لکھا ہے کہ 1995ء سے 99 ء تک حسن نواز کے اپنے ذرائع آمدن نہیں تھے ، یہ تو فرد بھی نہیں کہہ رہی کہ حسن نواز 1994ء کے بعد والد کے زیر کفالت تھے ،12 اپریل 2001 ء کو فلیگ شپ قائم ہوئی، کمپنیاں قائم ہونے اور نواز شریف کے منسلک ہونے میں 5 سال کا فرق ہے، نواز شریف نے سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملات چھپائے نہیں تھے، نواز شریف نے متفرق درخواست کے ساتھ اپنی ویزہ کی کاپی جمع کروائی تھی، فرد جرم میں حسن نواز سے آنے والی رقوم کا مریم نواز کو دی گئی رقوم کا ذکر ہوا، حسن نواز اور مریم نواز اس عدالت میں پیش نہیں ہوئے،استغاثہ نواز شریف کے اقامہ اور کیپٹل ایف زیڈ ای ملازمت سے ان کا تعلق فلیگ شپ سے جوڑنا چاہ رہی ہے، استغاثہ کہنا چاہتا ہے کہ نواز شریف کا تعلق ان کمپنیوں کے ساتھ ملازمت کی حد تک ہی نہیں، شواہد میں ایسی کوئی چیز نہیں آئی کہ نواز شریف کا تعلق ملازمت سے زیادہ ہو، صرف تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف مالک تھے۔

سماعت کے دوران محمد نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے حواے سے خواجہ حارث کی طرف سے احتساب عدالت کے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ نوازشریف نے جھوٹ بولا ،سپریم کورٹ کے فیصلے میں اثاثے چھپانے کی بات ہے ، سپریم کورٹ نے نوازشریف کی قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ قرار دیا ، قابل وصول تنخواہ اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر نوازشریف کے خلاف فیصلہ دیا گیا، نوازشریف پر فورجری یا پرجری کا بھی الزام نہیں ، سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ پر ہماری کوئی آبزرویشن اثر انداز نہیں ہوگی ، سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ دستیاب شواہد پر میرٹ پر اپنا فیصلہ کرے ۔

خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس میں تین نکات پر العزیزیہ ریفرنس کے دلائل اپنا لیے۔خواجہ حارث نے کہا کہ بے نامی دار ، جے آئی ٹی اور ایم ایل اے سے متعلق ہمارے دلائل وہی رہیں گے ، عدالت العزیزیہ ریفرنس میں ان نکات پر دئیے گئے دلائل کو فلیگ شپ کا حصہ بنا لے ۔سماعت کے دوران محمد نواز شریف نے حسن نواز کی برطانیہ میں جائیداد سے متعلق نئی دستاویزات پیش کر دیں۔

خواجہ حارث نے تین کمپنیوں کی دستاویزات عدالت کو دکھا دیں ۔نواز شریف نے دستاویزات کے حصول کے لئے برطانوی لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ کو درخواست دی تھی۔ تین کمپنیوں کی دستاویزات ہیں باقی بھی جلد آجائیں گی، دستاویزات میں دیکھ لیں حسن نواز کا کاروبار ہی یہ تھا جائیداد خریدنا اور فروخت کرنا ، دستاویزات دیکھ کر واپس کر دیں تصدیق کروانی ہے ، دستاویزات کی تصدیق کے بعد دوبارہ عدالت میں جمع کروا دیں گے ۔عدالت نے دستاویزات دیکھ کر خواجہ حارث کو لوٹا دیں۔عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی ۔