ملک کی تیز رفتار ترقی کیلئے ہمیں علم پر مبنی معیشت کو سنجیدہ انداز میں لینا ہو گا، چین نے علم پر مبنی معیشت کو اپناتے ہوئے تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کیں

چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری کا پاکستان سوسائٹی آف ڈویلپمنٹ اکانومسٹ کی 34ویں سالانہ کانفرنس سے خطاب

جمعہ 14 دسمبر 2018 20:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 دسمبر2018ء) ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا ہے کہ ملک کی تیز رفتار ترقی کیلئے ہمیں علم پر مبنی معیشت کو سنجیدہ انداز میں لینا ہو گا، چین نے علم پر مبنی معیشت کو اپناتے ہوئے تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کیں۔ وہ جمعہ کو پاکستان سوسائٹی آف ڈویلپمنٹ اکانومسٹ کی 34ویں سالانہ کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ علم پر مبنی معیشت عالمی سطح پر ایک حقیقت بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کو ہی علم پر مبنی معیشت قرار دیتے ہیں لیکن یہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے، اس کی وجہ سے دنیا بھر میں پیداواری لاگت میں کمی آئی اور معیارات بہتر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں یہ ٹرم علم پر مبنی معیشت گذشتہ پانچ سال میں متعارف کرائی تاہم یہ دنیا میں 20 سال پرانی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ نے پہلی مرتبہ ایک ارب ڈالر سے تجاوز کیا لیکن یہ دنیا کے مقابلہ میں کچھ نہیں، ہمیں اس کیلئے بہت کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں ہم علم پر مبنی معیشت پر زور دے رہے ہیں لیکن توجہ اس بات پر ہونی چاہئے کہ یہاں سے فارغ التحصیل طلباء کے علم کو ایکسپورٹ کیا جائے اور اس کیلئے جامع پالیسیاں مرتب کی جائیں۔

انہوں نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ کمپنی اپنی اشیاء کمزور ممالک سے تیار کراتی ہے اور یہ اشیاء ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کی جاتی ہیں، کمپنی کی اپنی کوئی فیکٹریاں نہیں وہ صرف اپنے نالج سے منافع کما رہی ہے، یہ صرف کمپنی اپنے ڈیزائن اور معیارات فروخت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں دو قسم کی اکانومیز ہیں، ایک نالج اکانومی اور دوسری عام اکانومی ہے، نالج اکانومی تیز رفتار ترقی کیلئے ضروری ہے جبکہ عام اکانومی میں ترقی کی رفتار سست ہے، اگر ہم نے تیز رفتار ترقی کرنی ہے تو ہمیں نالج اکانومی کی طرف سے جا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت آئی ٹی انڈسٹری کو سپورٹ کر رہی ہے، اس پر ٹیکس کی چھوٹ وغیرہ دی گئی ہے لیکن پاکستان میں ریسرچ پر فنڈنگ کی کمی کا مسئلہ ہے، ایچ ای سی اور چند دیگر تنظیمیں اس میں فنڈنگ کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں گلوبل ایجوکیشن پالیسی کو اپنانا ہو گا تاکہ ہماری یونیورسٹیاں غیر ملکی طلباء کو اپنی طرف مائل کر سکیں اور ہماری تیار کردہ فیکلٹی ان کو پڑھائیں، اس سے برین ڈرین پر قابو پانے میں مدد ملے گی جس کی وجہ سے ہماری معیشت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریسرچ کے ذریعے ہمیں علم تخلیق کرنا ہو گا اور اسے آگے پھیلانا ہو گا اسی میں ہماری بھلائی ہے اور اسی سے دنیا نے ترقی کی۔