سپریم کورٹ کا پاکستان کڈنی اینڈ لور ٹرانسپلانٹ کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے قانون سازی کی سمری پر پنجاب کی صوبائی کابینہ کو دو ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم

جمعہ 14 دسمبر 2018 22:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 دسمبر2018ء) سپریم کورٹ نے پاکستان کڈنی اینڈ لور ٹرانسپلانٹ کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے قانون سازی کی سمری پر صوبائی کابینہ کو دو ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا ۔عدالت نے پی کے ایل ائی انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے اور ایک ہفتے میں پاک فوج اور سرجن جنرل کی رضامندی لینے کا بھی حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سر براہی میں تین رکنی بنچ نے پاکستان کڈنی اینڈ لور ٹرانسپلانٹ ہسپتال سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ بائیس ارب روپیے خرچ کر دیے ساری رقم ایک ٹرسٹ کودے دی گئی،دو مرتبہ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا یہ قانون تبدیل کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ٹرسٹ کو رہنا چاہیے یا نہیں ، چیف جسٹس نے پی کے ایل آئی کے انچارج ڈاکٹر سعید اختر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تین سال سے آپ بیس لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے پی کے ایل آئی سے کوئی تنخواہ نہیں لی، انہوں نے کہا کہ ہم نے اکیس کڈنی ٹرانسپلانٹ کئے ہیں، کینسر کے علاج بھی کئے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ لیور کا ٹرانسپلانٹ تھا،گردوں کے آپریشن تو دوسری جگہوں پر بھی ہو رہے ہیں، آپریشن تھیٹر فعال نہیں ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے ڈاکٹر سعید اختر سے کہا کہ آپ شہباز شریف کے بڑے قریب تھے،اگر آپ کہیں تو آپ کو بتادوں گا کہ کیسے آپ شہباز شریف سے ملے تھے، ہمیں یہ سمجھائیں کہ پی کے ایل آئی کے لیے ٹرسٹ کی ضرورت کیا ہے، ٹرسٹ تو ایک خاص تعلق کی وجہ سے سابق وزیر اعلی نے بنایا تھا، کیا ٹرسٹ نے کبھی اپنا مالی حصہ ڈالا ہے، ممبر بورڈ نے جواب دیا کہ ٹرسٹ نے 165 ملین فنڈز کا حصہ ڈالا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ جون میں ایک لیور ٹرنسپلانٹ کا بھی آپریشن نہیں ہو سکا جتنے پیسے پی کے ایل آئی پر خرچ کیے گئے اتنے پیسوں میں تو پانچ ہسپتال بن جاتے یہ براہ راست کیس نیب یا اینٹی کرپشن کو دینا چاہیے۔

عدالت نے پی کے ایل آئی کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے قانون سازی کی سمری پر صوبائی کابینہ کو دو ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا ، عدالت نے پی کے ایل آئی انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے اور ایک ہفتے میں پاک فوج اور سرجن جنرل کی رضامندی لینے کا بھی حکم دے دیا۔ کیس کی سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کر دی۔