میرا چھوٹا بھائی 16دسمبر 2014کی کو سکول نہیں جانا چاہتا تھا ،ْاحمد نواز

پندرہ روز تک مجھے حارث کی شہادت کا نہیں بتایاگیا ،ْ 16 دسمبر کے روز میں سکول میں تین مرتبہ موت کے منہ سے بال بال بچ کر ہسپتال پہنچا تھا ،ْ بازو بچ جانا میرے لیے بہت بڑی خوشی کی خبر تھی جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ،ْشہید حارث کے بھائی اور شہداء کے ساتھی احمد نواز کی گفتگو

اتوار 16 دسمبر 2018 20:30

�ندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 دسمبر2018ء) پشاور میں آرمی پبلک سکول میں دہشتگردوں کے حملے میں شہید ہونے والے حارث نواز کے بھائی اور موت کے منہ سے بچ جانے والے 17 سالہ طالب علم احمد نواز نے کہاہے کہ میرا چھوٹا بھائی 16دسمبر 2014کی کو سکول نہیں جانا چاہتا تھا ،ْپندرہ روز تک مجھے حارث کی شہادت کا نہیں بتایاگیا ،ْ 16 دسمبر کے روز میں سکول میں تین مرتبہ موت کے منہ سے بال بال بچ کر ہسپتال پہنچا تھا ،ْ بازو بچ جانا میرے لیے بہت بڑی خوشی کی خبر تھی جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔

بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویومیں انھوں نے بتایاکہ 15 دسمبر 2014 کی شام ہماری والدین ایک تعزیت کیلئے سوات چلے گے تھے ،ْ گھر میں ہم دونوں بھائی تنہا تھے ،ْ والدین ہمیں تلقین کرکے گئے تھے کہ سکول سے چھٹی ہرگز نہیں کرنی ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے بتایا کہ16 دسمبر کی صبح جب میں نے حارث نواز کو اٹھایا تو اس نے سکول جانے سے انکار کیا مگر میں نے اس کو ڈرایا کہ والدین ناراض ہوں گے جس پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ناشتہ کرکے سکول جانے کو تیار ہوگیا۔

انہوںنے کہاکہ سکول جاتے ہوئے سکول وین میں اس نے مجھ سے بہت جھگڑا کیا کہ میں اس کو کیوں سکول بھج رہا ہوں ۔ بہرحال تھوڑی دیر کے بعد ہم سکول پہنچ گئے اور حارث نواز اپنی اور میں اپنی کلاس میں چلا گیا تھا۔احمد نواز نے بتایا کہ تقریباً تین پریڈ کے بعد ہمیں کہا گیا کہ ہم سب مین آیٹوریم میں پہنچ جائیں جہاں پرابتدائی طبی امداد کے حوالے سے لیکچر ہوگا۔

انہوںنے بتایا کہ ہم سب طالب علم آیٹوریم میں پہنچ گئے جہاں پر میں نے اپنے ایک ساتھی طالب علم سے وقت پوچھا تو میرا خیال ہے کہ اس نے بتایا کہ دس بج کر 30 منٹ ہوئے ہیں ،ْابھی اس نے یہ بات کی ہی تھی کہ پچھلے دروازے سے گولیاں چلنے کی آواز آئی تو میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ یہ چند دن پہلے ہونے والی ڈرل کا حصہ ہے جس میں ہمیں سکھایا گیا تھا کہ اگر کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آئے تو کس طرح اپنی حفاظت کرنی ہے۔

اسی ڈرل کو بروئے کار لاتے ہوئے میں یک دم ہی اپنی کرسی کے نیچے لیٹ گیا۔ فائرنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ میرے قریب ترین پہنچ گئی تھی ،ْاسی اثنا میں دیکھا کہ ایک دہشت گرد میرے پاس بیٹھے ہوئے طالب علم کے سر پر گولی مار کر میری طرف مڑرہا ہے ،ْمیں سمجھ گیا کہ اب میری باری ہے۔ دہشت گرد نے بالکل قریب سے فائر کیا تو جو میرے دائیں بازو پر لگا اور بازو صرف ایک گوشت کے لوتھڑے سے جڑا رہا گیا تھا۔

انہوںنے کہاکہ حملہ آور اسی طرح فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا تو میں اپنے زخمی بازو کو سنبھالتے ہوئے سٹیج کی جانب لپکا جہاں پر پر سکول استاد افشاں احمد موجود تھیں۔ افشاں احمد اپنے ہمراہ کچھ بچوں کو لے کر اسٹیج کے قریب بنے ہوئے چھوٹے کمرے میں داخل ہوئیں تو میں بھی پیچھے لپکا مگر چند ہی لمحوں میں دیکھا کہ افشاں احمد کو آگ لگی ہوئی تھی جس پر میں سٹیج کے ایک کونے میں لیٹ گیا۔

انھوں نے بتایا کہ چند منٹ میں کچھ ایسی آوازیں سنی جس سے پتا چلا کہ سیکورٹی فورسز پہنچ گئی ہیںانہوںنے کہاکہ میں مکمل طور پرنڈھال تھا، خون بہہ رہا تھا پوری طاقت جمع کرکے مدد کی آواز لگائی ،ْچند لمحوں ہی کے اندر ہی کسی اہلکار کے کندھوں پر تھا۔ آیٹوریم سے باہر پہنچے تھے کہ واضح طورپر مجھے پتا چلا کہ ہم پر فائرنگ ہوئی ہے مگر محفوظ رہا اور تھوڑی دیر کے اندر میں ایمبولینس میں تھا۔

16 دسمبر کے روز میں سکول میں تین مرتبہ موت کے منہ سے بال بال بچ کر ہسپتال پہنچا تھا۔احمد نوازکے مطابق ہسپتال میں بے انتہا رش تھا عوام کا سمندر ہمیں تسلیاں دے رہا تھا ،ْوہاں پر موجود ایک شخص سے فون لے کر اپنے والد کو کال کی اور پھر جب ہوش آیا تو ان کے والدین اور دیگر عزیز و اقارب ان کے قریب موجود تھے۔ انہوںنے کہاکہ 15 روز تک مجھے حارث کی شہادت کا نہیں بتایا گیا تھا مگر جب فیس بیک دیکھی تو پتا چلا کہ حارث تو اس دنیا میں موجود ہی نہیں ہے ،ْ جس پر میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا۔

انہوںنے کہاکہ پشاور لیڈی ریڈنگ میں عوام اور ہسپتال کا عملہ بہت محبت دے رہے تھے مگر عملے میں یہ باتیں ہورہی تھیں کہ میرا بازو کاٹ دیا جائیگا جس پر میں مایوسی کا شکار تھا۔ مگر 30 روز بعد پتا چلا کہ مجھے علاج کیلئے برطانیہ بھجا جارہا ہے۔ واقعہ کے 40 روز بعد میں کیوئین الزبیتھ ہسپتال برمنگھم میں تھا ،ْجہاں پر عملے نے محبت اور شفقت سے میرا علاج کرنے کے علاوہ مجھے ذہنی طور پر طاقت ور بنایا۔

پشاور میں میرے چھ اور برمنگھم میں میرے پانچ آپریشن ہوئے جس کے بعد مجھے خوش خبری سنائی گئی کہ میرا بازو بچ گیا ہے۔انہوںنے کہاکہ بازو بچ جانا میرے لیے بہت بڑی خوشی کی خبر تھی جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔انہوںنے بتایا کہ برمنگھم ہسپتال میں علاج کے دوران میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ میرا، میرے بھائی اور میرے دوستوں کا کیا قصور تھا کیا ہم مسلمان نہیں ہیں اور کس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان اور کسی بھی بے گناہ کو قتل کرسکتا ہے۔

برمنگھم ہسپتال میں علاج ہی کے دوران ٹیلی وژن کی خبروں پر دیکھا کہ پورا برطانوی معاشرہ نوجوان طالب علموں کے انتہا پسند ہونے اور دہشت گرد گروپوں میں شمولیت سے پریشان ہے۔ یہ خبریں دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ کیایہ طالب علم یہ نہیں جانتے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے ہم پاکستانیوں پر کیا بیتی ہی احمد نواز کے مطابق ہسپتال سے فارغ ہوا تو بڑی تعداد میں میڈیا نے مجھ سے بات کی جس دوران میں نے اپنا بازو اور جان بچ جانے پر برطانوی حکومت، معاشرے کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ خوشی کااظہار کیا اور اس بات پر دکھ کر اظہار کیا کہ برطانیہ میں بھی نوجوان طالب علموں کے اندر انتہا پسندی پھیل رہی ہے مگر وہ اس کے نتائج نہیں جانتے۔

براحمد نواز کے مطابق تعلیمی اداروں میں خطاب کے دوران اپنے ہم عمر طالب علموں کو بتاتا ہوں کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی نے مجھ سے میرا بھائی اور دوست چھین لیے ہیں، کئی ایک بچوں سے ان کے والدین چھن چکے ہیں جس کے بعد کئی طالب علم مجھ سے ملتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے ہمارے سوچنے کا انداز تبدیل کردیا ہے ،ْمیں اس کو بڑی کامیابی سمجھتا ہوں۔

احمد نواز کو سال 2016 میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے ملاقات کی دعوت دی تھی۔اس حوالے سے انہوںنے بتایا کہ اس ملاقات کے دورن انھوں نے مجھے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنی مہم کو جاری رکھیں۔ وزیراعظم ہاؤس سے ہوم آفس کو ہدایات جاری کردی جائیں گی کہ وہ آپ کے ساتھ تعاون کریں۔ اب تک جو کام کیا ہے وہ بہت قیمتی ہے ،ْوہ کام ہوا ہے جو بلین پاونڈز خرچ کرکے بھی نہیں کرسکے ہیں، اس کے بہت مثبت نتائج بر آمد ہورہے ہیں۔