موجودہ حکومت نے شروع دن سے گڈ گورننس کا عزم کر رکھا ہے، صوبے کی ترقی اور خوشحالی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے

وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال کا بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہارخیال

بدھ 19 دسمبر 2018 00:40

س* کوئٹہ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 دسمبر2018ء) وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال نے صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لئے ہرسطح پر اقدامات اٹھانے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے شروع دن سے گڈ گورننس کا عزم کر رکھا ہے۔ ہم صوبے کی ترقی اور خوشحالی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے منگل کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین کے اٹھائے گئے سوالات و نکات کا جواب دیتے ہوئے کیا ، اس موقع پر اپوزیشن اراکین کا صوبے میں طویل خشک سالی و قحط سالی کے اثرات پر شدید تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صوبائی حکومت گزشتہ اجلاس میں پاس کی گئی قرار داد پر عملدرآمد کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل دے کر وفاق سے اس معاملے پر رجوع کرنے کو یقینی بنائے ۔

(جاری ہے)

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس منگل کے روزڈپٹی سپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم خان رئیسانی نے نکتہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ میڈیا ہائوسز سے یکے بعد دیگرے لوگوں کو فارغ کرنے کا عمل افسوسناک اور تشویشناک ہے اس حکومت میں تو ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ ہوا تھا مگر یہاں حالت یہ ہے کہ لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے ہمیںاس صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے اور میڈیا ہائوسز کو بتادینا چاہئے کہ آپ مہربانی کریں ہمارے لوگوں کو بے روزگار نہ کریں پہلے سے ہمارے صوبے میں بے روزگاری ہے ۔

جمعیت العلماء اسلام کے سید فضل آغا نے کہا کہ پہلے بھی ہم اس حوالے سے اس فلو رپر بات کرچکے ہیں پہلے اگر20لوگ تھے تو اب 60ہوگئے ہیں، ہمارے صوبے کومیڈیا میں بالکل ہی نظر انداز کیا گیا ہے خشک سالی کا مسئلہ ہو یا پھر سی پیک اور امن وامان سمیت دیگر مسائل ہمیں کوریج نہیں ملتی۔ یہ صورتحال تشویشناک ہے کہ اخبارات مسلسل لوگوںکو فارغ کررہے ہیں اور ہم صوبے کی جانب سے ان اخبارات کو اشتہارات بھی دیتے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ سپیکر اس حوالے سے باقاعدہ رولنگ دیں اور وہ اخبارات جنہو ں نے صوبے کے لوگوں کونکالا ہے ان کے اشتہارات بند کردیئے جائیں ، سپیکر چیمبر سے انہیں ایک خط لکھاجائے اور ایوان سے قرار داد پاس کی جائے ۔ جے یوآئی کے اصغرعلی ترین نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک سلسلہ ہے جس میں مزید تیزی آرہی ہے صحافیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ان کے کئی سال ضائع کردیئے گئے اور انہیں بلا وجہ نوکریوں سے فارغ کیا جارہا ہے اس مسئلے پر صوبائی حکومت کووفاقی حکومت سے بات کرنی چاہئے ۔

صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ صحافی وہ قبیلہ ہے جو صوبے کے مسائل اجا گر کرتے ہیں، صحافی ہمارے صوبے کا سیاسی ، سماجی اور معاشی موقف اجاگرکرتے ہیں۔اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن اراکین نے اس بات پر شدید تشویش کااظہار کیا کہ اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے کی کاپیاں انہیں بروقت نہیں ملتیں اورمختلف محکموں سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جوابات بروقت نہیں ملتے اس موقع پر جے یو آئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ صوبائی اسمبلی کے ایوان کو سنجیدگی سے لے اور سنجیدگی سے چلانے کی کوشش کرے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ اس ضمن میں اسمبلی سیکرٹریٹ نہیں بلکہ وہ محکمے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اس ایوان کو سنجیدہ فورم کے طور پر نہیں لیا انہو ںنے کہا کہ سوال و جواب احتساب اور شفافیت کا ایک اہم ذریعہ ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے محکمے اور افسران خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے پندرہ بیس سالوںس ے ماموں بنانے کا سلسلہ جاری ہے ہم جو سوالات پوچھتے ہیںان میں80فیصد جوابات نہیںآ تے، انہوں نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس سلسلے میں یہ رولنگ دیں کہ ہر محکمے سے جو بھی سوال پوچھا جائے وہ ایک ہفتے کے اندر اندر اس کا جواب دینے کا پابند ہوہمیں ایجنڈے آدھے گھنٹے قبل ملتاہے حالانکہ یہ ایک دن قبل ہمیں موصول ہوجانا چاہئے اسمبلی اجلاسوں کا سالانہ کلینڈر جاری کرنا چاہئے ، صوبے میں بے روزگاری ، بھوک ، افلاس ، خراب طرزحکمرانی سمیت دیگر مسائل موجود ہیں، اداروں کوکارکردگی بہتر بنانی ہوگی ۔

سید فضل آغا نے کہا کہ میں نے 35سوالات جمع کرائے ہیں اب تک ایک بھی سوال کا جواب نہیں آیا حالانکہ قواعد کے مطابق پندرہ دن میں محکمہ جواب دینے کا پابند ہے انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کاذمہ داراسمبلی سیکرٹریٹ نہیں بلکہ وہ محکمے ہیں جن سے متعلق سوال اسمبلی سیکرٹریٹ انہیں بھیج دیتا ہے اور وہ اس کا جواب نہیں دیتے معاملات سول سیکرٹریٹ سے خراب ہیں اور اس کی وجہ سے وزراء صاحبان ہمارے سامنے آنے سے کتراتے ہیں ۔

بعدازاں سپیکر نے وقفہ سوالات اگلے اجلاس تک موخر کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے تمام محکموں کو تاکید کی کہ وہ وقفہ سوالات میں پوچھے گئے سوالات کے جواب ایک ہفتے کے اندر اندر جمع کرانے کو یقینی بنائیں ۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی نئی گورننگ باڈی تشکیل دی گئی ہے جس میں اپوزیشن اراکین کی کوئی نمائندگی نہیں جبکہ حکومتی نشستوں سے چار اراکین اسمبلی کو اس میں شامل کیا گیا ہے وہ لوگ جو انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئے اور ان کو خوش کرنے کے لئے قانون بنا کر انہیں معاون خصوصی بنایا گیا انہیں بھی اس باڈی میں شامل کیا گیا ہے جبکہ اپوزیشن سے کسی رکن کو شامل نہیں کیا گیا کم از کم اس بناء پر تو ہمیں گورننگ باڈی میں نمائندگی دی جاتی کہ کوئٹہ سے بلوچستان نیشنل پارٹی ، جمعیت العلماء اسلام اور پشتونخوامیپ کے نمائندے کامیاب ہوکر آئے ہیں ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں موجود مسائل اور خرابی کی جڑ کیوڈی اے ہے اس ادارے نے کوئٹہ شہر کے مسائل میں کمی تو نہیں کی بلکہ اضافے کا باعث بنا ہے انہوںنے کہا کہ حکومت ہمیںاس حوالے سے مطمئن کرے ۔اجلاس میں اقلیتی رکن دنیش کمار نے کہا کہ گزشتہ دنوں پاکستان میں بلیک لسٹ میں ڈالا گیا اور امریکہ کی جانب سے یہ بے بنیاد بیانات آئے کہ پاکستان میں اقلیتو ں کو آزادی حاصل نہیں دنیش کمار نے کہا کہ پاکستان میں بسنی والی تمام اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے اور انہیں اپنی مذہبی رسومات و عبادات کی ادائیگی میں کسی رکاوٹ کاسامنا نہیں ہے ہمیں فخر ہے کہ ہمارے مسلم بھائی بھی ہمارے ساتھ ہمارے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ غیر مسلم پاکستان میں مکمل طور پر محفوظ ہیں اور ہمار مذہبی تہوار سرکاری سطح پر منائے جاتے ہیں اس سے بڑھ کر آزادی کیا ہوسکتی ہے ۔

بلوچستا ن نیشنل پارٹی کے احمد نواز بلوچ نے ملک نصیر شاہوانی اور اختر حسین لانگو کے موقف کی حمایت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیوڈی اے کی پالیسیوں سے نالاں ہیں دوسری جانب کیوڈی اے کی گورننگ باڈی میں اپوزیشن کی کوئی نمائندگی نہیں ہے فوری طور پر موثر نمائندگی دی جائے تاکہ کوئٹہ کے لئے بہتر ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کو ممکن بنایا جاسکے ۔

انہوںنے کہا کہ پانی کی قلت کوئٹہ سمیت پورے صوبے کا اہم مسئلہ ہے گزشتہ دنوں جب وزیراعلیٰ نصیرآباد ڈویژن کے دورے پر تھے اسی دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھاگ میں پانی کے مسئلے کا سوموٹو نوٹس لیاانہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں گوادر جانے کا اتفاق ہوا وہاں جگہ جگہ لوگوں کو پانی کے انتظار میں بیٹھے دیکھاضرورت اس بات کی ہے کہ کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں اور ڈیم کی تعمیر پر توجہ دی جائے۔

صوبائی وزیر پی ایچ ای نور محمد دمڑ نے کہا کہ یہ مسائل اگرچہ آج کے ایجنڈے پر نہیں مگر پھر بھی اپوزیشن کی جانب سے ان پر بات کی جارہی ہے کار جیپ ریلی ایک الگ ایونٹ تھا جہاں تک پانی کی قلت کا مسئلہ ہے تو ہم کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں عوام کو پانی کی فراہمی کے لئے کوشاں ہیں کوئٹہ میں جہاں بھی شکایت ملتی ہے فوری کارروائی کرتے ہیں ہم نے ریکوری کا سلسلہ بھی تیز کردیا ہے خراب ٹیوب ویلوں کی شکایت ملتے ہی فوری مرمت کرائی جاتی ہے جہاں تک پرائیویٹ ٹینکروں پرپابندی کا مطالبہ ہے تو ہم یہ بھی کرسکتے ہیں لیکن شہر میں جہاں واسا او ر اندرون صوبہ پی ایچ ای کا سٹرکچر نہیں پرائیویٹ ٹینکروں کی بندش سے وہاں کے عوام کو پانی کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے باوجود ہم نے گزشتہ پانچ مہینوں میں جتنے کام کئے ہیں اتنے کسی حکومت نے پانچ سال کے دوران بھی نہیں کئے ۔

بھاگ میں پانی کے مسئلے کی اطلاع ملی یہ ایک تالاب کا مسئلہ تھا وزیراعلیٰ نے اس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ساڑھے سات کروڑ روپے جاری کردیئے ہیں آئندہ بھی کوئی مسئلہ درپیش آیا تو اس کے لئے حل کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو کا اپنے حلقہ انتخاب کلی شابو ، شیخ حسینی ، کلی باران زئی ،کلی جمعہ خان ، کلی اسماعیل ، کلی ترخہ شیرانی،ارباب کرم خان روڈ اور رئیسانی روڈ پر خراب ٹیو ب ویلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں حلقے سے دوسری مرتبہ منتخب ہو کر آیا ہوں مگر بیورو کریسی ہماری نہیں سن رہی میں ایم ڈی واسا اور دیگر متعلقہ حکام سے بارہا رابطے کرچکا ہوں مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود مسائل جوں کے تو ں ہیں گزشتہ روز صوبائی وزیر کی جانب سے میرے حلقہ انتخاب کلی شابو میں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر جا کر وہاں ٹیوب ویل کا افتتاح کے حوالے سے مجھے بے خبر رکھا گیا اس کے باوجود میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وزیر موصوف نے اپنے رشتہ دار کے ہاں کا ٹیوب ویل تودرست کرایا ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ تیس سالوں سے لوگوں کے ذمے واجب الادا بلوں کو جواز بنا کر ٹیوب ویل بند کئے جارہے ہیں آیا یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ تیس سالوں کے بلوں کو ادا کریں ۔میری حکومت کو تجویز ہے کہ وہ ایک بہتر حکمت عملی کے تحت لوگوں کو آئندہ بلوں کی ادائیگی کاپابند بناتے ہوئے لوگوں کو پانی کی فراہمی یقینی بنائے ۔ ایوان میں اختر حسین لانگو کی جانب سے تنقید پر نور محمد دمڑ کا کہنا تھا کہ وہاں میرے کسی رشتہ دار کا گھر نہیں علاقے کے لوگ میرے گھر آئے تھے کہ ہمارے یہاں کا ٹیوب ویل بند ہے اور منتخب نمائندہ ہمیں ملاقات کے لئے وقت نہیں دے رہا جس پر میں نے وہاں کھلی کچہری لگا کر ایم ڈی واسا کو طلب کرکے ٹیوب ویل کو فعال بنانے کے احکامات جاری کئے مجھے وہاں کے دورے کے موقع پر نظر آنے والے کچرے پر دکھ ہوا اگر میں وہاں کا منتخب نمائندہ ہوتا تو اسی وقت استعفیٰ دے دیتا منتخب نمائندے کو وزیراعلیٰ کی جیپ ریلی کا تو پتہ ہے لیکن اپنے حلقہ انتخاب میں لوگوں کے مسائل سے وہ بے خبر ہیں جس پر ڈپٹی سپیکر نے اختر حسین لانگو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بیرون ملک دوروں کی بجائے عوامی مسائل کے حل کے لئے وزیرصاحب کے پاس جائیں ۔

اجلاس میں بی این پی کے ثناء بلوچ کا پوائنٹ آف آرڈر پر خشک سالی سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان کی 83.4فیصد آبادی بھوک اور افلاس میں اپنی زندگی بسر کررہی ہے۔ قحط سالی سے متعلق پی ڈی ایم اے کے فراہم کردہ اعدادوشمار درست نہیں ہیں بلوچستان کے 14نہیں بلکہ تمام اضلاع خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں ۔ گزشتہ اجلاس میں ہم نے اس حوالے سے ایک قرار داد بھی لائے تھے جو منظور ہوگئی تھی اس قرار داد میں پورے صوبے کو آفت زدہ قرار دینے ، زرعی قرضوں کی معافی اور شمسی توانائی کے ٹیوب ویلوں کی تنصیب سمیت دیگر ہنگامی اقدامات کا مطالبہ شامل تھا ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ اس ضمن میں ایک کمیٹی قائم کرکے وفاقی حکومت سے رجوع کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے بلوچستا ن اسمبلی میں این ایف سی ایوارڈ اورسیندک پراجیکٹ سے متعلق ہماری تجاویز پر عملدرآمد نہیں ہوا جس طرح سے حکومت چلائی جارہی ہے اس سے صوبے کی پسماندگی کا ازالہ ممکن نہیں اس سے لوگ مزید بھوک و افلاس کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔اجلاس میں پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ 13دسمبر2018کو کوئٹہ شہر سے معروف ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو اغواء کیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں خوف وہراس پایا جاتا ہے لہٰذا اسمبلی کی کارروائی روک کر اس فوری نوعیت کے اہم عوامی مسئلے کو زیر بحث لایا جائے بعدازاں سپیکر نے تحریک التواء منظور کرنے اور21دسمبر کے اجلاس میں اس پر عام بحث کرانے کی رولنگ دی ۔

اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ میر محمد عارف محمد حسنی نے اسمبلی قواعد وانضباط کار مجریہ 1974ء کے قاعدہ نمبر174کے تحت آڈیٹر جنرل آف پاکستا ن کی آڈٹ رپورٹ برحسابات حکومت بلوچستان برائے مالی سال 2017-18اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی کارکردگی برائے آڈٹ رپورٹ بر کوئٹہ آب رسانی اور ماحولیاتی ترقی کا منصوبہ یوان کی میز پر رکھا۔اجلاس میں اقلیتی رکن دنیش کمار نے بلوچستان صوبائی اسمبلی مجریہ1974ء کے قاعدہ نمبر180کے تحت بلوچستان صوبائی اسمبلی میں اقلیتی کاکس کا قیام عمل میں لانے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دی ۔

اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے قحط اور خشک سالی سے متعلق حکومتی اعدادوشمار اورمتاثرہ اضلاع کو فراہم کی جانے والی امدادی سہولیات سے متعلق تفصیلات کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم اے نی14اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا ہے جن میں بارکھان ، کوئٹہ ڈویژن ، قلات ڈویژن ، زیارت ، رخشان ڈویژن اور مکران ڈویژن کے اکثر اضلاع شامل نہیں ہیں۔

اپوزیشن نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت پورے صوبے کو آفت زدہ قرار دے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا حکومتی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے صرف پانچ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہیں مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ اس سے ایک کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں جن اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے حکومت کو حقائق کے برعکس معلومات فراہم کی ہیں انہیں معطل کیا جائے ۔ ایوان میں خشک سالی سے متعلق صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے سلیم کھوسہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جس انداز میں قحط سالی کو ایوان میں پیش کررہا ہے ایسا کچھ نہیں ہے ہم نے تمام ڈپٹی کمشنر ز کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں قحط سالی سے سفارشات مرتب کرکے پی ڈی ایم اے کو ارسال کریں تاہم 14اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے اپنے اضلاع میں قحط سالی کی نشاندہی کی ہے اور ان اضلاع کو امدادی سامان راشن اور متاثرہ لوگوں کے لئے رقم ڈپٹی کمشنرز کو فراہم کردی گئی ہے بلوچستان میں قحط سالی پہلی مرتبہ نہیں آئی بلکہ اس سے پہلے بھی مختلف ادوار میں قحط سالی کے اثرات پیدا ہوتے رہے ہیں موجودہ قحط سالی اس نوعیت کی نہیں پھر بھی حکومت اقدامات اٹھارہی ہے اپوزیشن بتائے کہ قحط سالی سے انسانوں اور جانوروں کی اموات کے کتنے واقعات رونما ہوئے ہیں اور کتنے لوگوں نے ان اضلاع سے نقل مکانی کی ہے ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ متاثرہ اضلاع میں صرف ٹینٹ اور اشن کی فراہمی سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے تاہم ہم اپنا کام بہتر انداز میں کررہے ہیں جو اضلاع متاثر ہیں وہاں ڈیموں کی تعمیر کی تجویز زیر غور ہے ۔

اپوزیشن کو ساتھ لے کر قحط سالی سے متعلق مزید اقدامات اٹھائے جائیں گے۔صوبائی وزیر زراعت زمرک اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل آج کے نہیں آج جو اپوزیشن میں بیٹھے ہیں ان سب کی بلوچستا ن میں حکومت رہی ہے۔ انہوںنے عوام کے لئے کیا کیا ہی موجودہ اپوزیشن کی جماعت گزشتہ حکومت کی صوبے اور مرکز میں اہم اتحادی رہی ہے جو اپنی ناکامیوںکا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈالنا چاہتی ہے انہوںنے کہا کہ عوام کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر کام کرنا چاہئے موجودہ حکومت کو تین ماہ کا عرصہ مکمل ہوا ہے ایسے میں ہم 25سالوں کے بحرانوں کا خاتمہ کیسے کرسکتے ہیں۔

بلوچستان کی 90فیصد آبادی کادارومدار زراعت پر ہے اپوزیشن ہمیں تجاویز دے کہ بہتری کے لئے ہمیں مزید کیا کرنا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ گوادر میں ماہی گیر صورتحال سے بہتر آگاہ ہوتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں اعتماد میں لے کر اقدامات کئے جائیںمگر انہیں مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے جو درست اقدام نہیں ۔ جمعیت علماء اسلام کے اصغرترین نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے صرف14اضلاع کی رپورٹ آئی ہے بتایا جائے کہ باقی اضلاع کی رپورٹ آئی ہے جن ڈپٹی کمشنرز نے رپورٹ نہیں دی ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی یکطرفہ اقدامات سے گریز کیا جائے بلوچستان کی چالیس فیصد عوام کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متاثر ہوئے ہیں ان کی جمع پونچی لٹ گئی ہے انہوں نے زور دیا کہ تمام ڈپٹی کمشنروں سے خشک سالی کے حوالے سے رپورٹ لی جائے یہ مسئلہ نیا یا پرانا ہے اس میں پڑے بغیر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پر قابو پائے اور اپنی ذمہ داری کسی پر نہ ڈالے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے اکبر مینگل نے کہا کہ کراچی سے مولوی نصیر مینگل کو اٹھایاگیا ہے اس پر صوبائی حکومت سندھ حکومت سے رابطہ کرے کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کے لئے احتجاج کررہے ہیں اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو عدالت میںپیش کیا جائے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ خاران میں 45ہزار افراد خشک سالی اور قحط سالی سے متاثر ہیں جبکہ پی ڈی ایم اے نے 1117لوگوں کے لئے راشن بھیجا ہے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اگر بھیجا جانے والا راشن ساڑھی12کلو فی خاندان تقسیم کیا جائے تو بھی یہ صرف تین سو خاندانوں کے لئے ہے باقی لوگ کہاں جائیں گے ۔

راشن کی فراہمی قحط سالی پر قابو پانے کا فوری علاج نہیں انہوں نے زور دیا کہ پی ڈی ایم اے سے گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران راشن کی خریداری اور فراہمی کی تفصیلات نکالی جائے تو بھی صورتحال سامنے آجائے گی پھر امدادی سامان کی خریداری اور ترسیل پر جو خرچہ آتا ہے اگر یہی رقم متاثرین کو دی جائے تو وہ تین گنازیادہ راشن خرید سکتے ہیں ۔بلوچستان کے اضلاع میں نیوٹریشن پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے ہم اپوزیشن کے ساتھ مل کر مسئلے کے مستقل حل کو یقینی بنائیں گے ہم سمجھتے ہیں کہ امدادی سامان کی فراہمی مسئلے کا مستقل حل نہیں یہ فوری ریلیف ہے صورتحال کوجلدبہتر بنائیں گے۔

صوبائی مشیر ملک نعیم بازئی نے کہا کہ حکومت کو آئے ہوئے ابھی چند مہینے ہی ہوئے ہیں ہم سے حساب لینے والے بتائیں کہ انہوں نے چالیس سال اقتدار میں رہتے ہوئے کیا کیا ۔صوبائی وزیر داخلہ سلیم کھوسہ نے کہا کہ یہ بات ان کے علم میں اب لائی جارہی معزز رکن تحریری طور پر آگاہ کریں سخت کارروائی کریں گے۔اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے اپوزیشن جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا ان پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اپوزیشن لیڈر منتخب کیا وزیراعلیٰ اور حکومتی اراکین کا بھی شکریہ اداکرتا ہوں کہ جنہوں نے میڈیا کے ذریعے مبارکباد دی میری گزارش ہوگی کہ اپوزیشن کاکام حکومت کے معاملات کو درست اور صوبے کے مسائل کی نشاندہی کرنا ہے حکومتی ارکان کی جانب سے اپوزیشن کی بلا جواز مخالفت اور بحث برائے بحث سے گریز کیا جائے آج یہاں پر اپوزیشن کی جانب سے جتنے مسائل کی نشاندہی کی گئی وہ تمام درست اور اہمیت کے حامل ہیں اگر اختر لانگو اور احمد نواز لانگو نے کیوڈی اے کی گورننگ باڈی کی بات کی ثناء بلوچ نے قحط اور خشک سالی کامسئلہ اٹھایا تو یہ صوبے کے اہم مسائل ہیںوقفہ سوالات میں جوابات نہ ملنے یا تاخیر سے ملنے کے مسئلے پر بھی اپوزیشن کا موقف درست تھا حمل کلمتی نے گوادر میں پینے کے پانی اور ماہی گیروں کے احتجاج پر بات کی تو اس پر بھی اعتراض کی کوئی بات نہیں اپوزیشن کی جانب سے کوئٹہ میں پینے کے پانی کا مسئلہ بھی اہم ہے مگر حکومتی ارکان اور وزراء نے مثبت انداز میں جواب دینے کی بجائے اپوزیشن کو کائونٹر کرنے کی کوشش کی جو درست اقدام نہیں امید ہے کہ مستقبل میں اس سے گریز کیا جائے گا۔

اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ جن صحافیوں کو نوکریوں سے برخاست کیا گیا ہے جو غیر قانونی و غیر آئینی عمل ہے میڈیا کے ملازمین کو اس بے قدری سے نکالنا جمہوریت اور تمام روایات کے منافی قدم ہے ۔یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ صوبے کے صحافیوں کو ملازمتوں کو فی الفور بحال اور ان کی ملازمتوں کو مستقل بنیادوں پر تحفظ دینے کو یقینی بنائے ۔

صوبے میںصحافیوں کو ملازمتی تحفظ کی فراہمی کے معاہدے تک صوبائی حکومت ان کے اشتہارات بڑے میڈیا گروپس کے اشتہارات پر مکمل پابندی لگائے تاکہ صوبے کے صحافیوں میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کے خاتمے کو ممکن بنایا جاسکے ۔بعدازاں سپیکر نے ایوان کی رائے سے قرار داد منظور ہونے کی رولنگ دی ۔اس موقع پر ڈپٹی سپیکر نے ایوان میں صوبے میں باران رحمت کے لئے دعا کرائی ۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں کو بلوچستان کی مثبت تصویر کشی کرنی چاہئے سرمایہ کار بلوچستان میں سرمایہ کاری کے لئے تیار بیٹھے ہیں اگر ہم صوبے کی ایسی تصویر کشی کریں گے تو وہ یہاں آنے سے پہلے وہیں سے بھاگ جائیں گے۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے مختصر مدت کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں کے دورے کرکے عوامی مسائل کے حل کو یقینی بنایا ہے جس پر ثناء بلوچ کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان کے حقائق اورتکالیف سے آنکھیں بند کرکے کیسے مثبت تصویر کشی کریں بلوچستان کی تکالیف اتنی زیادہ ہیں کہ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں مثبت اعمال کی بدولت ہی مثبت منظر کشی کی جاسکتی ہے سابق حکومتوں کے اعمال اتنے اچھے نہیں رہے بلوچستان میں307کلو میٹر پر ایک گرلز سکول واقع ہے 28کلو میٹر پر ایک پرائمری سکول 50ہزار سکول چھت سے محروم ہیں 50ہزار سکول ایک کمرے پر محیط ہیں پانچ ہزار سکول ایک ٹیچر پر مشتمل ہیں سی پیک میں7ارب روپے میں سے صرف صفر اعشاریہ چار فیصد حصہ بلوچستان کو ملا ہے 75فیصد آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے 18لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں ہمارے حلقوں میں مداخلت ہورہی ہے لاپتہ افراد کی مائیں اور بہنیں سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیںآرمی چیف ، وزیر دفاع اور حکومت بلوچستان اس مسئلے کو مسئلہ نہیں سمجھ رہی ہے ۔

سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ ہم جمہوریت کے قائل ہیں ۔سی پیک سے بلوچستان کو نعروں کے سوا کچھ نہیں ملا وزیراعلیٰ بلوچستان کو عوام نے منتخب کیا اور اس ایوان نے انہیں وزارت اعلیٰ کے منصب پر بٹھایا ہے جس کو دما دم مست قلندرکرنا ہے کرلے ہم اس کے لئے تیار ہیں ۔انہوںنے کہا اگر حکومت مجھے عوامی نمائندہ نہیں سمجھتی تو میں واشک کے ایک رہائشی کی حیثیت سے اس ایوان میں اپنی فریاد وزیراعلیٰ کو سناتے ہوئے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ایک دن کے لئے میرے ساتھ میرے حلقہ انتخاب کا دورہ کریں تاکہ انہیں حقائق کاپتہ چل سکے ۔

اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان کی تقریر کو مفروضوں پر مبنی قرار دیتے ہوئے پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ نے تنقید کے نشتر برسائے ہیں۔حکومت پشتونوں کے اختیارات کم کرنے جارہی ہے، بعدازاں بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ 21دسمبر سہ پہرتین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔