سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کا فیصلہ محفوظ

نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کا فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 19 دسمبر 2018 13:32

سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کا فیصلہ محفوظ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 19 دسمبر 2018ء) : سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ریفرنسز محفوظ کرنے کا فیصلہ العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز میں فریقین کے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد کیا گیا۔

دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یو کے لینڈ رجسٹری سے دستاویزات مل گئیں، تصدیق بھی کروا لی گئی ہے۔ لینڈ رجسٹری سے موصول شدہ اضافی دستاویزات عدالت میں جمع کروا دی گئیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف نے تسلیم نہیں کیا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ لی، کیپٹل ایف زیڈ ای میں نواز شریف کا عہدہ اعزازی تھا۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت صرف ویزا مقاصد کے لیے تھی۔ جج نے دریافت کیا کہ تنخواہ سے متعلق آپ کا مؤقف درست مان لوں تو کیس سے کیا تعلق بنتا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ تعلق یہ بنتا ہے نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 3 ججز نے جے آئی ٹی بنوائی تھی اور فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر ہی دیا۔

28 جولائی کو ان 3 ججز کے فیصلے پر 5 ججوں نے دستخط کیے۔ 28 جولائی کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دی تھی۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے آج کچھ دستاویزات پیش کیں، اس کا مطلب ہے تمام دستاویزات ان کی دسترس میں تھیں، نواز شریف نے جان بوجھ کر وہ دستاویزات پیش نہیں کیں۔

انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث نے کہا ریفرنس دائر ہونے سے پہلے تفتیش ہوچکی تھی، جے آئی ٹی کسی کرائم کی تفتیش کے لیے نہیں بنی تھی۔ نواز شریف کی نااہلی کے لیے درخواستوں پر کچھ سوالات اٹھائے گئے۔ جے آئی ٹی صرف ان سوالوں کاجواب تلاش کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مزید دستاویزات جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی۔

انہوں نے کہا کہ ایک دستاویز ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔ کچھ وقت دیا جائے تو وہ دستاویز موصول ہونے پر پیش کردوں گا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی مدت سب کے سامنے ہے، اب مزید وقت نہیں دیا جا سکتا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویز برطانیہ میں لینڈ رجسٹری ڈپارٹمنٹ کو بھی نہیں ملی، کب تک مل سکتی ہے کچھ وقت بتا نہیں سکتا۔

ایک ہفتے کا وقت اگر دیا جائے تو شاید وہ دستاویز آجائے۔ نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس وقت ملزم کی یہ درخواست معاملے کو التوا میں ڈالے گی، حتمی دلائل پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں۔ احتساب عدالت نے خواجہ حارث کی ایک ہفتے کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کردی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز نمٹانے کے لیے 24 دسمبر تک کی مہلت دی گئی تھی۔

احتساب عدالت سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کا محفوظ کیا گیا فیصلہ 24 دسمبر کو سنائے گی۔ واضح رہےکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر کیے گئے دونوں ریفرنسز پر 15 ماہ تک کارروائی ہوئی۔ دونوں ریفرنسز پر کُل 183 سماعتیں ہوئیں، العزیزیہ ریفرنس میں 22 جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہان پیش ہوئے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے دونوں ریفرنسز میں ہی اپنی صفائی پیش نہیں کی۔

احتساب عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف روسٹرم پر آگئے اور جج سے کہا کہ آج میں اس عدالت میں 71 ویں مرتبہ آیا ، کیا یہ میری آخری پیشی ہے؟ جس پر احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ جی ہاں ، آج آپ کی آخری پیشی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا ضمیر مطمئن ہے ، میں کبھی کرپشن کے قریب بھی نہیں گیا۔ مجھ پر کرپشن کا کوئی جُرم ثابت نہیں ہوا اور مجھے اپنے ساتھ کیے جانے والے اس سلوک کی سمجھ نہیں آتی۔

میرے خلاف مفروضوں کی بنیاد پر کیس بنایا گیا۔ میرے خلاف جو بھی کارروائی ہوئی مفروضوں کی بنا پر ہوئی۔ اللہ سب جانتا ہے ، ہم نے عوام اور صوبے کی خدمت کی ہے اور ہمیں یہ صلہ ملا ہے۔انہوں نے جج سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ جج ہیں مجھے توقع ہے کہ آپ انصاف کریں گے۔ واضح رہےکہ دلائل مکمل کرتے ہوئے قومی احتساب ادارے (نیب) کے استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کو کیپیٹل ایف زیڈ ای سے 2006 سے 2013 کے درمیان 10 ہزار درہم موصول ہوتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کو سپریم کورٹ میں اپنی جائیداد کے بارے میں وضاحت کرنے کا پہلے موقع دیا جاچکا جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپر کیس میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم دوسرا موقع تھا جہاں وہ وضاحت کرسکتے تھے۔ جبکہ تیسرا موقع شریف خاندان کو تحقیقاتی افسر کی جانب سے طلب کرکے دیا گیا تھا، شریف خاندان اپنے اثاثوں کے حوالے سے وضاحت دینے میں متعدد مواقع ملنے کے باوجود ناکام رہے ۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ شریف خاندان عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی کہ ان کی جلا وطنی کے دوران سابق وزیر اعظم کے والد میاں محمد شریف جن کا انتقال 2004 میں ہوا نے حسین نواز کے لیے 54 لاکھ درہم اور حسن نواز کے لیے 42 لاکھ درہم دیے تھے تاکہ وہ برطانیہ اور سعودی عرب میں اپنا کاروبار شروع کرسکیں۔ منی ٹریل کے حوالے سے شریف خاندان نے وضاحت کی کہ یہ رقم میاں محمد شریف نے قطر کے شاہی خاندان میں کی گئی 1 کروڑ 20 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری میں سے دی تھی جبکہ قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی جے آئی ٹی کے سامنے ان تفصیلات کی تصدیق کے لیے کبھی پیش نہیں ہوئے۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کوششیں نہیں کی کیونکہ اس سے دفاع کا کیس مضبوط ہوتا۔ خواجہ حارث نے التجا کی کہ مرحوم میاں شریف نے 1974 میں متحدہ عرب امارات میں گلف اسٹیل مل کی بنیاد رکھی تھی جس کے 75 فیصد حصص 1978 میں عبداللہ اہلی کو فروخت کیے گئے تھے جس کی وجہ سے بعد ازاں اس کا نام اہلی اسٹیل ملز (اے ایس ایم) رکھا گیا تھا جبکہ بقیہ 25 فیصد اے ایس ایم کو 1980 میں فروخت کیے گئے تھے اور یہ رقم 1 کروڑ 20 لاکھ درہم تھی جو قطری شاہی خاندان میں سرمایہ کاری کی گئی تھی۔

استغاثہ نے اعتراض کیا کہ شریف خاندان کے مطابق یہ ذاتی ٹرانزیکشنز تھیں کیونکہ رقم کو صحیح راستوں سے نہیں بھیجا گیا تھا۔ جس کے بعد سماعت کو آج تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔