امریکی صدر کا شام سے فوج واپس بلانے کے فیصلے کا دفاع،

روس کا بھی خیر مقدم واشنگٹن، مشرق وسطیٰ میں پولیس اہلکار کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا ،ْ ڈونلڈ ٹرمپ خطے میں لڑائی کو انقرہ اور تہران ہاہمی تعاون سے روک سکتے ہیں ،ْ طیب اردوان تمام فریقین کو شام کی جغرافیائی سالمیت کی عزت کرنی چاہیے اور دونوں ممالک اس ضمن میں ایک صفحے پر ہیں ،ْایرانی صدر شام میں داعش کے خلاف امریکی فضائی حملوں کا سلسلہ کچھ عرصے تک جاری رہے گا‘ پینٹا گون

جمعہ 21 دسمبر 2018 16:15

امریکی صدر کا شام سے فوج واپس بلانے کے فیصلے کا دفاع،
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 دسمبر2018ء) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن، مشرق وسطیٰ میں پولیس اہلکار کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ کیا امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں پولیس والے کا کردار ادا کرنا چاہیی اور وہ بھی ان ممالک کیلئے جو ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت اور اربوں ڈالر خرچ کیے جانے کے باوجود واشنگٹن کی کارکردگی کو قابل ستائش قرار نہیں دیتے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم ہمیشہ ادھرہی رہیں گی وقت آگیا ہے کہ اب دوسرے اپنی لڑائی خود لڑیں۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور ان کے ایرانی ہم منصب حسن روحانی نے شام میں داعش کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون کے عزم کو دہرایا تاہم دونوں ممالک کے رہنماؤں نے شام سے امریکی فوج کی واپسی سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

(جاری ہے)

انقرہ میں ایرانی ہم منصب کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں رجب طیب اردوان نے کہا کہ خطے میں لڑائی کو انقرہ اور تہران ہاہمی تعاون سے روک سکتے ہیں۔ترکی کے صدر نے اپنی بات کی مزید وضاحت پیش نہیں کی۔حسن روحانی نے کہا کہ تمام فریقین کو شام کی جغرافیائی سالمیت کی عزت کرنی چاہیے اور دونوں ممالک اس ضمن میں ایک صفحے پر ہیں۔پینٹاگون نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں داعش کے خلاف امریکی فضائی حملوں کا سلسلہ کچھ عرصے تک جاری رہے گا۔

واضح رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈٹرمپ نے شام میں داعش کے خلاف لڑائی کو کامیاب قرار دیتے ہوئے اپنی فوجیں فوری طور پر بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے فضائی حملے سے متعلق کوئی بیان نہیں دیا تھا، داعش کے خلاف امریکہ کے اتحادی ممالک فرانس اور برطانیہ بھی کروڑ ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔پینٹاگون کی ترجمان کمانڈر ریبیکا ریباریش نے واضح کیا کہ جب تک امریکی فوجیں شام میں موجود ہیں تب تک فضائی حملے بھی جاری رہیں گے۔

انہوںنے کہاکہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد مستقبل کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں۔دوسری جانب جرمنی نے خبردار کیا ہے کہ شام سے فوجوں کی واپسی کا امریکی فیصلہ ’حاصل کردہ کامیاب نتائج‘ کو تباہ کردے گا۔وزیر خارجہ ہیکو ماس نے کہا کہ داعش کو دھکیل دیا گیا لیکن خطرہ تاحال موجود ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ داعش کے خلاف لڑائی ختم کرنے کا فیصلہ ’عسکری اور سول تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے‘ کیا جائیگا۔

انہوں نے شام میں دیرپا امن اور استحکام سمیت سیاسی عمل کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ کی اہمیت پر زور دیا۔برطانیہ نے شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کے باوجود داعش کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی ترجمان نے کہا کہ داعش کے خلاف عالمی اتحاد سے غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی، لیکن اس ضمن میں مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم داعش کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت، برطانوی شہریوں اور اپنے اتحادیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے سے گریز نہیں کریگی۔روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے متعلق فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کا دمشق سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے۔

ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ داعش سے مقابلے میں مکمل کامیابی پر تحفظات ہیں، تاہم مجموعی طور پر امریکہ کے صدر کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ہمیں تاحال شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ممکن ہے۔شام میں داعش کے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں مصرف امریکی اتحادی کردش فورس نے واشنگٹن کے فیصلے کو خطرناک قرار دے دیا۔سیرین ڈیموکریٹس فورسز (ایس ڈی ایف) نے کہا کہ شام سے امریکی فوجیوں کی واپس سے داعش دوبارہ منظم ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ’واشنگٹن کے فیصلے سے انسداد دہشت گردی مہم بری طرح متاثر ہوگی‘۔