ڈیم نہ بنا ،ْ زلزلہ متاثرین کی امداد نہ ہوئی تو میں بھی ملکر احتجاج کروں گا ،ْچیف جسٹس ثاقب نثار کا حکومت پربرہمی کا اظہار

امداد کیلئے آنے والی رقم حکومت کے پاس امانت تھی، نہ تو کوئی اسکول کھلا، نہ ہسپتال بن سکا اور نہ نیا بالاکوٹ بنا، لوگ آج بھی خیموں اور ٹین کے گھروں میں بدترین حالات میں جی رہے ہیں ،ْ کمال ہے جس صوبے نے سب سے زیادہ محبت دی، اس کے مسائل کا وزیراعظم کو پتہ ہی نہیں ،ْریمارکس

منگل 1 جنوری 2019 14:58

ڈیم نہ بنا ،ْ زلزلہ متاثرین کی امداد نہ ہوئی تو میں بھی ملکر احتجاج ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جنوری2019ء) سپریم کورٹ میں 2005 کے زلزلہ متاثرین کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیںکہ اگر ڈیم نہ بنا اور ان لوگوں کی امداد نہ ہوئی تو وہ بھی متاثرین کے ساتھ مل کر احتجاج کریں گے ،ْ امداد کیلئے آنے والی رقم حکومت کے پاس امانت تھی، نہ تو کوئی اسکول کھلا، نہ ہسپتال بن سکا اور نہ نیا بالاکوٹ بنا، لوگ آج بھی خیموں اور ٹین کے گھروں میں بدترین حالات میں جی رہے ہیں ،ْکمال ہے جس صوبے نے سب سے زیادہ محبت دی، اس کے مسائل کا وزیراعظم کو پتہ ہی نہیں۔

منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ بینچ نے زلزلہ متاثرین فنڈ کرپشن کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے متاثرین کی امداد کے معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک سانحہ گزر گیا ،ْ کٹے پھٹے لوگوں کی مدد کیلئے دنیا اٹھ کھڑی ہوئی، امداد کے لیے آنے والی رقم حکومت کے پاس امانت تھی، لیکن نہ تو کوئی اسکول کھلا، نہ ہسپتال بن سکا اور نہ نیا بالاکوٹ بنا، لوگ آج بھی خیموں اور ٹین کے گھروں میں بدترین حالات میں جی رہے ہیںچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ '25 اپریل کو ہم نے دورہ کیا اور رپورٹ وزیراعظم کو بھیجی آج تک اس پر کیا عمل ہوا ہم چار گھنٹے کے نوٹس پر بالا کوٹ جا سکتے ہیں تو وزیراعظم کیوں نہیں جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایک ہفتے کی مہلت دیں پھر آپ کو رپورٹ دیں گے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ اب ایک ہفتہ نہیں ملے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک بات بتا دوں اگر ڈیم نہ بنا اور ان لوگوں کی امداد نہ ہوئی تو میں بھی ان لوگوں کے ساتھ مل کر احتجاج کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کی کہی دوسری باتوں پر عمل نہ ہوا تو میں بھی جا کر بیٹھ جاؤں گا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا سے استفسار کیا کہ آپ نے زمینوں کے مسائل حل کیی جس پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے جواب دیا کہ جی زمینوں کے مسائل حل کر دیئے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو مخاطب کرکے کہا کہ ایک کام انتظامیہ کے کرنے کا ہے اور وہ نہیں کرتی اور ہمارے نوٹس لینے پر ہر کام ہو جاتا ہے تو کیا ہم جوڈیشل ایکٹیوزم کر رہے ہیں پھر کہا جاتا ہے کہ میں جوڈیشل ایکٹیوسٹ ہوں۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں سر یہ بالکل جوڈیشل ایکٹیوزم نہیں ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ جماعت الدعوة نے وہاں ایکسرے مشین لگائی ہے، جماعت اسلامی نے بھی وہاں کام کیا ہے، کام نہیں کیا تو حکومت نے نہیں کیا، سرکار نے کچھ نہیں کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو غالباً اس معاملے کا پتہ نہیں تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کمال ہے جس صوبے نے سب سے زیادہ محبت دی، اس کے مسائل کا وزیراعظم کو پتہ ہی نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کی اس طرف توجہ دلائیں، ہم تو اس علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 11 سال سے ایرا نے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کیا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے پیر (14 جنوری) کو این ڈی ایم اے کے چیئرمین کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وضاحت دینے کا حکم دیا۔عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت 10 دن میں اس حوالے سے رپورٹ پیش کرے کہ زلزلہ زدگان کے فنڈز سے کتنے پراجیکٹ مکمل کیے گئے اور یہ فنڈز ملتان میٹرو اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر کیوں خرچ ہوئے۔