بنگلہ دیشی اپوزیشن اتحاد کادھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ

اقوام متحدہ دھاندلی کے ذریعے انتخابات جیتنے والی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکارکرے،کمال حسین کا انٹرویو

بدھ 2 جنوری 2019 11:53

ڈھاکہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 جنوری2019ء) بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کے مرکزی اتحاد کے رہنماء کمال حسین نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت پر حالیہ انتخابات کے نتائج کو اپنے حق میں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔جرمن ریڈیو سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ انتخابات کو زیادہ تر نے مسترد کر دیا ہے۔ اگر سب نے نہیں، تو کم از کم حزب اختلاف کی جماعتوں نے نتائج تسلیم نہیں کیے، یہ نتائج عوامی خواہشات کے عکاس نہیں ہیں۔

یہ نتائج حکومت نے ایک طرح سے تیار کیے ہیں۔ عوام حکومت کی جانب سے ان نام نہاد انتخابات کے نتائج کو خود پر مسلط کیے جانے کے بعد متحد ہو کر مزاحمت کر رہے ہیں تاکہ ان نتائج کو درست کیا جائے۔ شہریوں کے لیے یہ بالکل بھی قابل قبول نہیں کہ وہ اگلے پانچ برسوں تک ایک ایسی حکومت کو برداشت کریں، جو جعلی ووٹوں کی بنیاد پر اقتدار میں آئی ہو۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے اور ہم جلد ہی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبہ بندی پر عمل شروع کریں گے۔

اپوزیشن ان نتائج کو مسترد کرتی ہے اور ایک بڑی تحریک شروع کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے ایک دوسرے سے صلاح و مشورے کر رہی ہیں۔ ہم عوام کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لیے جلد ہی ایک باقاعدہ حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔انہوں نے کہاکہ چیف الیکشن کمشنر ہی اس بحران کے اصل ذمہ دار ہیں۔

اتوار کو ہوئے انتخابات میں بے قاعدگیوں کے باوجود انہوں نے انتخابات کو درست قرار دیتے ہوئے نتائج کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد تمام لوگوں کا کمشنر کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کرا سکنے کی صلاحیت پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ان کا کہناتھا کہ ہمیں ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے، جس میں شہری، سیاسی جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شامل ہوں اور جو ملک اور اداروں میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے مصروف عمل ہوں۔انہوں نے کہاکہ مجھے امید ہے کہ بین الاقوامی برادری ملک کی تازہ صورتحال پر غور کرے گی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق اسے کسی بھی ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے، جو عوامی رضامندی کے بغیر اقتدار میں آئی ہو۔