پاکستان ، افغانستان اور ایران کے انسداد منشیات کے اداروں کے عہدیداروں کا دو روزہ اجلاس

افغانستان سے افیون اورمنشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے تعاون اور معلومات کے تبادلے کے عزم کا اعادہ، نفوذ پذیر سرحدوں پر بیک وقت کارروائیاں کرنے پر اتفاق یو این او ڈی سی ادویہ سازی کی صنعت والے مماک کو ادویہ کی تیاری کے لئے افغانستان سے افیون کی خریداری پر قائل کرے

بدھ 2 جنوری 2019 21:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 02 جنوری2019ء) پاکستان ، افغانستان اور ایران نے افغانستان سے افیون اورمنشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے تعاون اور معلومات کے تبادلے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ اس بات کا اعلان تینوں ممالک کے انسداد منشیات کے حکام کے دور روزہ اجلاس میں کیا گیا۔ افغانستان میں پیدا ہونے والی افیون اور منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے پاکستان، افغانستان اور ایران کے انسداد منشیات کے اداروں کے عہدیداروں کا دو روزہ اجلاسیہاں اسلام آباد میںمنعقد ہوا جس میں تینوں ممالک کے انسداد منشیات کے اعلیٰ حکام نے شریک ہوئے۔

سہ فریقی اجلاس کے انعقاد میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات وجرائم( یو این او ڈی سی) نے تعاون کیا تھا۔

(جاری ہے)

یو این او ڈی سی نے 2007ئ میں تینوں ممالک کے درمیان تعاون اور معلومات کے تبادلہ کا یہ میکنزم متعارف کرایا تھا جس کا بنیادی مقصد افغانستان سے افیون اوردیگرمنشیات کی سمگلنگ کی روک تھام ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں تینوں ممالک نے منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے معلومات کے بروقت تبادلے اور تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ نفوذ پذیر سرحدوں پر بیک وقت کارروائیاں کرنے پربھی اتفاق ظاہرکیا۔

یہ اجلاس ایک ایسے موقع پرمنعقد ہوا ہے جب اقوام متحدہ کے ادارے نے باضابطہ طور پر تصدیق کی ہے کہ2018ئ میں خشک سالی اور قیمتوں میں کمی کی وجہ سے افغانستان میں افیون کی کاشت میں تقریباً20 فیصد کمی ہوئی ہے۔ پاکستان میں یو این او ڈی سی کے کنٹری نمائندہ سیزر گڈیس نے سہ فریقی اجلاس میں بتایا کہ تینوں ممالک نے سال2019ئ میں انسداد منشیات اور افیون و منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے مزید جامع کوششیں کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تینوں ممالک کے علاوہ عالمی برادری کی جانب سے تعاون میں اضافہ بھی ضروری ہے کیونکہ منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام صرف ان تینوں ممالک کے بس کی بات نہیں ہے۔ افغانستان کی وزارت انسداد منشیات کے ڈائریکٹر جنرل محمد عثمان فروتن کے مطابق رواں سال افغانستان میں پیدا ہونے والی کل افیون کا89 فیصد ان علاقوں میں کاشت کی گئی ہے جہاں دہشت گردوں اورعسکریت پسندوں کی سرگرمیاں زیادہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال کے دوران افغان حکام نی433 ٹن منشیات پکڑی اور منشیات کی سمگلنگ کے الزام میںتقریباً4 ہزار مشتبہ افراد کے خلاف ملکی قوانین کے تحت کارروائی کی گئی۔ افغانستان میں افیون کی پیداوار اور افیون و منشیات کی عالمی مارکیٹ میں سمگلنگ نے بین الاقوامی مسئلہ کی شکل اختیارکرلی ہے، مسئلہ سے نمٹنے کیلئے تینوں علاقائی ممالک کے مابین تعاون اور رابطہ کاری احسن اقدام ہے تاہم جب تک افیون کی کاشت اور پیداوار کے حقیقی اسباب پر توجہ نہیں دی جاتی اس وقت تک یہ مسئلہ موجود رہے گا۔

امریکا نے گذشتہ17 برسوں میں افغانستان میں افیون کی کاشت کے خاتمہ اور انسداد منشیات کی سرگرمیوں کیلئے افغانستان کو8 ارب ڈالر کے فنڈز فراہم کئے ہیں تاہم اس کے باوجود افیون کی پیداوار کے خاتمہ یا کیم کی کوششوں کو کامیابی نہیںملی ہے۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی امداد اس کے علاوہ ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان کے کاشت کار افیون کی کاشت کیوں کر رہے ہیں۔

بظاہر اس سوال کا جواب افغانستان کی معیشت بالخصوص زرعی معیشت کے حوالے سے جاری ہونے والے اعدادوشمار میں ملتا ہے۔ افغانستان میں صرف 12 فیصد کے قریب زمین قابل کاشت ہے، ملک میں 5 دریائوں کی موجودگی کے باوجود آبپاشی کا نظام اتنا ترقی یافتہ نہیں ہے کہ جس سے قابل کاشت اراضی کو پانی کی فراہمی ممکن ہوسکے اگرچہ یو ایس ایڈ اور دیگر ادارے افغانستان کے کسانوں اور کاشتکاروں کو فصلوں کی پیداوار میں اضافہ، آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے اور زراعت اور لائیو سٹاک کے فروغ کیلئے امداد کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم اس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔

صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی ایسے مسائل ہیں جس کی وجہ سے افغان کاشت کار فوری فائدہ کیلئے پوست کی فصل پر انحصارکرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس فصل سے انہیںکم وقت میںفصل کا اچھا نعم البدل مل جاتا ہے۔ افغانستان میں افیون کی کاشت، پیداوار اور تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حجم اربوں ڈالر مالیت کا ہے مگر اس سے نہ تو افغانستان کی حکومت اور نہ ہی کاشتکاروں کو پورا معاوضہ مل پا رہا ہے۔

اس کے برعکس اس تجارت سے حاصل ہونے والی ا?مدنی گروپوں کا غالب حصہجنگجو قبائلی سرداروں، عسکریت پسندوں اور منشیات کے سمگلروں کی جیبوں میں جارہا ہے۔2001ئ میں افغانستان میں نیٹو کی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد سے تعمیرنو اور بحالی کے نام پر امریکا، یورپی یونین، جاپان اکوردیگر امداد دینے والے ممالک مختلف منصوبوںکے ساتھ ساتھ افیون کی کاشتاور پیداوار میںکمی کیلئے اقدامات کررہے ہیں کیونکہ منشیات کی سمگلنگ پوری عالمی برادری کیلئے ایک مسئلہ ہے ، اس صورتحال کے تناظر میں جہاں افغانستان کی حکومت اور پڑوسی ممالک سر جوڑ کر اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ افغانستان کی حکومت افیون کی کاشت اور پیداوارکے عمل کو باضابطہ بنائے۔ افغان حکومت کو بین الاقوامی برادری بالخصوص ادویہ سازی کی صنعت کے حامل ممالک سے رابطے استوار کرکے افیون کی قانونی برا?مد پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ سال 2017ئ میںادویہ سازی کی صنعت کا عالمی حجم934.8 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا اور ایک اندازے کے مطابق سال2021ئ کے اختتام پر اس صنعت کا حجم 1170 ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گا۔

اس وقت افیون متعدد سکون ا?ور ادویات کی تیاری میںاستعمال ہورہا ہے۔ افغانستان کی حکومت اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیاتو جرائم یو این او ڈی سی کوچاہئے کہ وہ تمام ترقی یافتہ ممالک اور ایسے ترقی پذیر ممالک جہاں ادویہ سازی کی صنعت موجود ہے کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ ادویہ سازی کی صنعت کیلئے افیون کی خریداری افغانستان سے کریں گے ، اس اقدام سے افغانستان کی حکومت کے ریونیو میں بے پناہ اضافے کے ساتھ ساتھ کسانوں کے منافع میں بھی اضافہ ہوگا۔

اس اقدام سے منشیات کی غیرقانونی سمگلنگ میں اگرچہ مکمل طور پر تو نہیں مگرخاطر خواہ کمی ا?ئے گی۔ اس ضمن میں افغانستان کی وزارت زراعت،وزارت اقتصادیات، وزارت خارجہ اور وزارت تجارت پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن اگر نیت اور ارادہ کرلیا جائے تو کوئی بات ناممکن نہیں ہے۔ افغانستان اس وقت تعمیر نو اوربحالی کے عمل سے گزر رہا ہے۔

افغانستان کی حکومت کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ منشیات کی سمگلنگ سے متعلق تجارت کا ایک غالب حصہ منشیات سمگلروں، عسکری گروپوں اور نان سٹیٹ ایکٹرز کے پاس جارہا ہے۔ افیون کی کاشت، پیداوار اور برآمد کو قانونی شکل دے کرافغانستان کی حکومت ان چھوٹے کاشتکاروں کو براہ راست فائدہ پہنچا سکتی ہیں جواس وقت معاشی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔