ْحکومتی حکمت عملی ناکام ہوچکی ،معیشت کے معاملات میں جھوٹ بولا جارہا ہے ،شاہد خاقان عباسی

حکومتی ترجمان کہہ رہے ہیں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے، معیشت سے متعلق معاشی امور پر حکومتی ترجمان کی بات مانیں یا دیگر وزراء کی،حکومت نے ڈالر کی قیمت بڑھائی لیکن ایکسپورٹ میں کمی آئی ،ایسے غیرمعمولی حالات کبھی پاکستان میں پیدا نہیں ہوئے ، اس حکومت میں اکثر لوگوں کو پتا نہیں ہوتا کہ ان کا کیا کام ہے، افراط زر 10 سال کی بلند ترین شرح پر پہنچ گیا ہے ،معاشی ترقی نصف سے کم ہوکر رہ گئی ہے جس کے باعث عوام کو تقریبا 14 سو ارب کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا،وزیر خزانہ اور وزیر اطلاعات اپنا منہ بند رکھیں دونوں کا بیان ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا، سابق وزیراعظم کی پارٹی رہنمائوں مریم اورنگزیب اور مصدق ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس

جمعرات 3 جنوری 2019 18:25

ْحکومتی حکمت عملی ناکام ہوچکی ،معیشت کے معاملات میں جھوٹ بولا جارہا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جنوری2019ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماء وسابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومتی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے،معیشت کے معاملات میں جھوٹ بولا جارہا ہے ،حکومتی ترجمان کہہ رہے ہیں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے، معیشت سے متعلق معاشی امور پر حکومتی ترجمان کی بات مانیں یا دیگر وزراء کی،حکومت نے ڈالر کی قیمت بڑھائی لیکن ایکسپورٹ میں کمی آئی ،ایسے غیرمعمولی حالات کبھی پاکستان میں پیدا نہیں ہوئے ، اس حکومت میں اکثر لوگوں کو پتا نہیں ہوتا کہ ان کا کیا کام ہے، افراط زر 10 سال کی بلند ترین شرح پر پہنچ گیا ہے ،معاشی ترقی نصف سے کم ہوکر رہ گئی ہے جس کے باعث عوام کو تقریبا 14 سو ارب کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا،وزیر خزانہ اور وزیر اطلاعات اپنا منہ بند رکھیں دونوں کا بیان ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا۔

(جاری ہے)

اسلام آباد میں پارٹی رہنمائوں مریم اورنگزیب اور مصدق ملک کے رہنماء پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماء وسابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے،حکومت کو آج ناکامیوں کا سامنا ہے اور ایسے حالات آگئے ہیں کہ حکومت کے ترجمان کہہ رہے ہیں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت کا ترجمان خطرے کی گھنٹیاں بجنے کا کہہ دے تو اپوزیشن ،پارلیمنٹ، حکومتی بنچوں ، تمام اداروں اور عوام کو تشویش ہونی چاہئے ۔

سابق وزیراعظم نے ڈاکٹر فاروق سلیم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کے زرمبادلہ کے ذخائر 10 سال کی کم ترین سطح پر ہیں،حکومتی حکمت عملی ناکام ہوچکی کچھ اور سوچنے کی ضرورت ہے،فاروق سلیم نے کہا تھا کہ حکومت معاشی مسائل کو حل نہیں کررہی، اضافی قرضے لئے جارہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آئی ایم ایف اور حکومت ایک ہی نقطے پر قائم ہیں جو آئی ایم ایف چاہتی ہے وہی حکومت بھی چاہتی ہے تو اب تک یہ فیصلہ کیوں نہیں ہوسکا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں نے پچھلے 32 سالہ سیاست میں نہیں دیکھے کہ حکومتی ترجمان ان ہی کی پالیسیوں پر تنقید شروع کردے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مجھے علم نہیں کہ ڈاکٹر فاروق سلیم واقعی حکومتی ترجمان ہیں یا نہیں یا انہیں عہدے سے ہٹایا جاچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں تو سب کو تشویش ہونی چاہیے،ایسے غیرمعمولی حالات کبھی پاکستان میں پیدا نہیں ہوئے ، اس حکومت میں اکثر لوگوں کو پتا نہیں ہوتا کہ ان کا کیا کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ جولائی تا دسمبر کی مدت کا بجٹ خسارہ مالی سال 2017 کے بجٹ خسارے کے مقابلے میں زیادہ ہے تو حکومتی خرچے کی بات کی گئی تھی تو بجٹ خسارہ کیسے بڑھا۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ٹیکس وصولی اور جی ڈی پی کا تناسب بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں کمی آئی،انہوں نے کہا کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو کے ریونیو میں 6 مہینے میں 10 فیصد کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افراط زر 10 سال کی بلند ترین شرح پر پہنچ گیا ہے جبکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 30 فیصد کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ چیزیں بہت غیر معمولی ہیں اور اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم یہ سب معاملات عوام کے سامنے رکھیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے ڈالر کی قیمت بڑھائی لیکن ایکسپورٹ میں کمی آئی، حکومت معیشت کے معاملات میں جھوٹ بول رہی ہے،اس کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے معیشت تباہ ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اقتدار میں آئے صرف 5 مہینے ہوئے ہیں لیکن دوسرا منی بجٹ پیش کیے جانے کے امکانات ہیں۔انہوں نے کہا کہ 5 ماہ میں افراط زر میں اضافہ ہوا،برآمدات میں ناکامی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی نصف سے کم ہوکر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے عوام کو تقریبا 14 سو ارب کا خسارہ پاکستان کے برداشت کرنا پڑے گا۔شاہد خاقان عباسی نے حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ اور وزیر اطلاعات کو چاہیے کہ اپنا منہ بند رکھیں کیونکہ ایک کا بیان دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو دوسرا اہم فیصلہ یہ کرنا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں یہ فیصلہ پہلے کرلیا گیا ہوتا تو آج معیشت کے یہ حالات نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایک شخص حکومت کا خود ساختہ ترجمان بن گیا ہے تو میں نے صرف اس کی باتیں آپ کے سامنے رکھی ہیں اور حقائق بتانے کیساتھ ساتھ معیشت کے مسائل کوحل کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔