سپریم کورٹ ،ْڈیم کیلئے موبائل فون بیلنس پر خصوصی ٹیکس لگانے سے متعلق تجاویز طلب

ڈیم کی تعمیر کی نگرانی سپریم کورٹ کر رہی ہے، وزارت آبی وسائل یا واپڈا نہیں، سپریم کورٹ کی نگرانی میں ڈیم بنے گا ،ْ عدالت عظمیٰ سال بعد 2019 میں 2 ڈیم بنیں گے، مہمند ڈیم کے بعد دیامر بھاشا ڈیم کا افتتاح ہوگا ،ْ چیئر مین واپڈا

پیر 7 جنوری 2019 20:36

سپریم کورٹ ،ْڈیم کیلئے موبائل فون بیلنس پر خصوصی ٹیکس لگانے سے متعلق ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 جنوری2019ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے دیامر بھاشا اور مہمنڈ ڈیم کی تعمیر سے متعلق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کو کہا ہے کہ وہ تجویز دیں کہ کیا موبائل فون بیلنس پر ڈیم کے لیے خصوصی ٹیکس لگایا جاسکتا ہے۔ پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے دیامر بھاشا اور مہمنڈ ڈیم کے حوالے سے کیس کی سماعت کی، اس دوران وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا اور چیئرمین واپڈا عدالت میں پیش ہوئے۔

اس دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا کہ دونوں ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ٹائم لائن موجود ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ واپڈا ہم سے کوئی رابطہ نہیں کر رہا، وہ سمجھتا ہے کہ اسے آزادی مل گئی اب وہ مرضی کے مطابق کام کریگا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈیم کی تعمیر کی نگرانی سپریم کورٹ کر رہی ہے، وزارت آبی وسائل یا واپڈا نہیں، سپریم کورٹ کی نگرانی میں ڈیم بنے گا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں کہ کب افتتاح کرنا ہے، کب کام شروع کرنا ہی جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایک ڈیم 2027 میں بنے گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے وزیر اعظم کے مطابق 2025 میں پاکستان میں پانی ختم ہوجائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بابو سرٹاپ سے مشینری لے جانا ممکن نہیں، وہاں ٹنل بنائے بغیر گزارہ نہیں جبکہ آپ کی حکومت کے اداروں میں کوئی تعاون ہی نہیں ہے۔

اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ واپڈا اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ ای) کے درمیان کوئی تال میل نظر نہیں آتا۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ڈیم کا کل تخمینہ ایک ہزار 4سو 50 ارب روپے ہے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت نے کبھی سوچا ہے کہ ڈیم بنانے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ فنڈ سے ڈیم بن جائے گا لیکن ایک تحریک بن جائے گی اور یہ تحریک بن گئی ہے، آج بھی ایک شخص 10 لاکھ کا چیک دے گیا ہے جو میری جیب میں پڑا ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے چیک نکال کر عدالت میں دکھایا اور ساتھ ہی ریمارکس دیے کہ یہ ہے وہ جذبہ جس سے کام ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں کا صرف یہ کام ہے کہ ٹی وی پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے خلاف بیان دیں جبکہ میں نے کہا تھا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کمیٹی قائم کریں۔دوران سماعت عدالت میں چیئرمین واپڈا نے پریزنٹیشن دی اور بتایا کہ 50 سال بعد 2019 میں 2 ڈیم بنیں گے، مہمند ڈیم کے بعد دیامر بھاشا ڈیم کا افتتاح ہوگا۔

چیئرمین واپڈا نے بتایا کہ 2023 میں ڈیم مکمل ہوجائے گا اور اس کے لیے 8 ہزار 6 سو 68 ایکڑ کی کل زمین چاہیے جبکہ خیبرپختونخوا حکومت نے زمین فراہم کرنے کے حوالے سے بہت مدد کی ہے۔اس پر چیف جسٹس نے چیئرمین واپڈا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سب کچھ لکھ کر دیں، اس پر آپ کے دستخط ہوں گے۔چیئرمین واپڈا نے بتایا کہ واپڈا کے خلاف پروپگینڈا چل رہا ہے، سنگل بڈنگ پر تنقید ہو رہی ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے مت گھبرائیں پروپیگنڈا چلتا رہتا ہے، جس شخص کو تکلیف ہوگی وہ ہمارے پاس معاملہ لے کر آئے گا، پھر ہم آپ کے سارے قوانین بھی دیکھ لیں گے۔

چیف جسٹس نے چیئرمین واپڈا سے کہا کہ ہمیں پورا منصوبہ بنا کر دیں کہ کب ڈیم کا کون سا حصہ بنے گا، اس کے علاوہ یہ یہ بھی بتائیں کہ آپ 63 فیصد رقم کا انتظام کیسے کریں گے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے گورنر اسٹیٹ بینک سے مکالمہ کیا کہ جو رقم جمع ہے، اس کو کہا رکھا جائے، جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ ٹریڑری بل کی مد میں رکھنا سب سے اچھا ہے، اس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ تحریری صورت میں تجاویز دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے موبائل فون کارڈز پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جبکہ لوگ کہتے ہیں کہ ختم نہ کریں ڈیم کو دے دیں، سالانہ 36 ارب روپے بنتے ہیں، اس کے علاوہ 10 ارب روپے پانی کمپنیوں پر لگائے گئے ٹیکس سے آجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک بیرون ملک سے آنے والی رقم پر کٹوتی کے بارے میں آگاہ کریں جس پر گورنر اسٹیٹ بینک نے جواب دیا کہ جن ممالک سے رقم آرہی ہے وہ خود کاٹ رہے ہیں، ہم کٹوتی نہیں کر رہے۔

بعد ازاں عدالت نے چیئرمین واپڈا کو ڈیموں کی تعمیر سے متعلق تحریری منصوبہ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔عدالت نے ہدایت کی کہ گورنر اسٹیٹ بینک بتائیں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے عطیات بھجوانے کے عمل کو کیسے آسان بنایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر بتائیں کہ کیا موبائل فون پر ڈیم کے لیے خصوصی ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔عدالت نے حکم دیا کہ چیئرمین پیمرا ڈیم پر تنقید کے حوالے سے جواب جمع کرائیں ،ْ چیئرمین ایف بی ا?ر اس بارے میں آگاہ کریں کہ کیا پانی پر نافذ العمل ٹیکس کی رقم ڈیم پر خرچ کی جاسکتی ہے۔بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت (8 جنوری) تک ملتوی کردی