جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد نیک نیتی پر مبنی تھی ، اختیارات سے تجاوز کرنے اور کسی کے اختیارات میں مداخلت کا کبھی ذہن میں خیال نہیں آیا‘ چیف جسٹس

مجھ سے دانستہ یا نا دانستہ غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن اس میں بد نیتی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ،سختی کا مقصد تذلیل نہیں بلکہ قانون پر عملدرآمد کی کوشش تھی سپریم جوڈیشل کونسل میں صرف دو ریفرنسز پڑے ہیں ،ریفرنسز کو ججز کے گلے کا پھندا نہیں بنا سکتے ،جھوٹے ریفرنسز سے ججز کو بلیک میل نہیںہونے دینگے جسٹس میاں ثاقب نثار کا لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے اپنے اعزاز میں دئیے گئے عشائیے سے خطاب

جمعہ 11 جنوری 2019 23:06

جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد نیک نیتی پر مبنی تھی ، اختیارات سے تجاوز کرنے ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جنوری2019ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد نیک نیتی پر مبنی تھی اور میرا اس کے سوا کوئی اور مقصد نہیں تھا ، اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے اور کسی کے اختیارات میں مداخلت کا کبھی ذہن میں خیال نہیں آیا ،مجھ سے دانستہ یا نا دانستہ غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن اس میں بد نیتی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ، اگرکسی کے ساتھ سختی کی تو اس کا مقصد کسی کی تذلیل نہیں بلکہ قانون پر عملدرآمد کی کوشش تھی ،سپریم جوڈیشل کونسل میں صرف دو ریفرنسز پڑے ہیں اور باقی سارے میرٹ پر نمٹا دئیے گئے ہیں ،ان ریفرنسز کو ججز کے گلے کا پھندا بنا سکتے ہیںاور نہ جھوٹے ریفرنسز سے ججز کو بلیک میل ہونے دیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوںنے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے اپنے اعزاز میں دئیے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر نامزد چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ ، لاہو رہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان سمیت دیگر ججز صاحبان اور بارز کے عہدیداران بھی موجود تھے ۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میں زندگی میں بہت کم رویا ہوں اور آج آپ کے پیار نے میری آنکھیں نم کر دی ہیں ۔

میں اپنے گھر میں ہی رہا ہوں اور آج بھی اپنے گھر میں ہی ہوں ۔ میں وثوق اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ لاہور ہائیکورٹ سے میری وابستگی سب سے پرانی ہے اور شاید ایک ہی چہرہ ہے جس کی نسبت مجھ سے پرانی تھی وہ سعید حسن تھے جن کا انتقال ہو گیا ہے اور عابد حسن منٹو نظر نہیں آرہے ۔ انہوںنے کہا کہ میں مال روڈ پر واقع ایک سکول میں پڑھتا تھا اور بابا غنی مجھے سائیکل پر بٹھا کر ہائیکورٹ بار لاتا تھا ، میرے والد ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے تھے اور اس وقت میری عمر سات سے آٹھ سال تھی ، میں یہاں کی راہداریوں میں کھیلتا رہتا تھا اور میری اس عمارت سے 56سال کی وابستگی ہے ۔

میں نے اس وقت اس عمارت اور عدلیہ کا احترام دیکھا تھا لیکن آج شاید لوگوں کی نظر میں یہ نسبتاً کم ہوا ہے کیونکہ لوگوں کو جلد اور شفاف انصاف نہیں مل رہا ۔ انہوںنے کہا کہ یہ وہی سڑک ہے جس پر میں موٹر سائیکل پر گزرتا تھااورآج جب میں اپنے سفر کا اختتام کر رہا ہوں تودو جھنڈوں والی گاڑی پر آیا ہوں، اس کے پیچھے محنت، ایمانداری اور ادارے سے محبت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ایک نعمت جو کئی لاکھ نعمتوں کے برابر ہے وہ پاکستان ہے جس کی وجہ سے آج ہم آزادی کے ساتھ سانس لے رہے ہیں اور اس آزاد سانس کی ضمانت اس پر محیط ہے کہ منصف معاشرہ قائم ہو ۔ حضرت علی کا قول ہے کہ ظلم اور کفر کا معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے لیکن جہاں انصاف میسر نہ ہو وہ معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔

انہوںنے اللہ تعالیٰ نے یہ عہدہ دے کر ہمیں رزق ، عزت، وقار، احترام اور بخشش عطا کر دی ہے ، انصاف پسند جج کو دنیا میں بھی اور آخر ت میں بھی اس کا صلہ ملے گا ۔ انہوں نے کہا کہ جب میں سیکرٹری بار تھا تو مولانا طارق جمیل یہاں آئے تھے انہوں نے کہا تھاکہ قاضی کے بارے میں ہے کہ محشر میں ایک خطہ ہوگا جہاں چھائوں ہو گی جب سورج سوا نیزے یا سوا میل کے فاصلے پر ہو گا تو سب سے پہلی چھائوں کے لئے جسے پکار دی جائے گی اور جو ٹھنڈک محسوس کر سکے گا وہ عادل اور قاضی کوہو گی ، اللہ نہ کرے میں اس مقام اور انعام سے محروم ہو جائوں ،میں ججز صاحبان سے کہوں گاکہ وہ اسے صرف نوکری نہ سمجھیں یہ ایک خدمت ہے ، یہ قوم کی خدمت ہے ۔

میں نے جب سے اوپن کچہری کا سلسلہ شروع کیا ہے بہت سے مظلوم لوگوں کو انصا ف ملا ہے ۔ یہاں ایسے بھی لوگ تھے جنہیں پینتیس چالیس سال سے اپنے ملکیتی گھر کا قبضہ نہیں مل رہا تھا او رہم نے ایک دن میں انہیںقبضہ دلایا ، ہم نے ان لوگوں کے لئے کوشش کی جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے دوائی نہیں خرید سکتے تھے اور ہم نے ہسپتالوں میں ایسی سہولتیں پیدا کیں ، ایک بچی کے گلے کا آپریشن ہوا ہے جو بولنے کے قابل ہو گئی ہے اور اسی طرح ایک بزرگ کا کینسر کا علاج کرایا ۔

انہوںنے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد رکھی تو یہ نیک نیتی پر مبنی تھی اور میرے ذہن میں اس کے سوا کوئی اورمقصد نہیں تھا ، میرے ذہن نے کبھی یہ نہیں آیا کہ میں اپنے اختیارات سے تجاوز کروں یاکسی کے اختیارات میں مداخلت کرو ،میںنے اپنی لائن کو مد نظر رکھا ۔ اگر ہم ہسپتال گئے ہیں تو یہ کوشش کی ہے کہ عوام کو علاج معالجے کیلئے جو وسائل درکار ہیں وہ مہیا ہوں ، میں نے وہاں کسی کی آنکھ کا آپریشن نہیں کیا یا کسی کے کام میں مداخلت نہیں کی ۔

میںنے وہ فر ض ادا کیا ہے جو میری ذمہ داری تھی ۔ مجھ سے دانستہ یا نا دانستہ غلطیاں ہوں گی لیکن اس میں بد نیتی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ،اگر میں نے سختی کی ہو گی تو اس کا مقصد کسی کی تذلیل نہیں بلکہ قانون پر عملدرآمد کی کوشش تھا۔ انہوںنے کہا کہ وکلاء اس نظام کے لئے لازم و ملزوم ہیں ،آج ہمیں بائیس اے نے یر غمال بنا لیا ہے ،بہت جلد پولیس اصلاحات آئیں گی ا ور 14تاریخ کو تحفہ دے رہے ہیں جس سے 22اے کی مشکلات دور ہوں گی اور پولیس کا میکنزم ٹھیک کیا جاسکے گا ۔

انہوںنے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صرف دو ریفرنسز موجود ہیںاور باقی ہم نے سارے میرٹ پر نمٹا دئیے ہیں ۔ ہم ان ریفرنسز کو ججز کے گلے کا پھندا نہیں بنا سکتے ،ان کا فیصلہ میرٹ پر کیا گیا ہے ، جھوٹے ریفرنسز کے ذریعے ججز کو بلیک میل نہیں ہونے دیں گے اور یہی انصاف کے تقاضے ہیں جو ہم نے پورے کرنے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ ہم اپنا احتساب خود کر رہے ہیں ،امید ہے پاکستان بار اور پنجاب بار بھی شعور کے ساتھ انصاف فرمائیں گے۔