ایون فیلڈ ریفرنس:نواز شریف ،مریم نواز،صفدر کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل خارج

نیب پراسیکیوٹر بتادیں کن اصولوں پر ضمانت منسوخ ہوسکتی ہے، بار بار کہتا ہوں کہ وائٹ کالر کرائم میں ثبوت کے لیے نیا قانون بنائیں، چیف جسٹس ثاقب نثار نواز شریف نے ضمانت کا غلط استعمال نہیں کیا ، ٹرائل کورٹ میں مسلسل پیش ہوئے،بدقسمتی سے نواز شریف سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ نیب کو کیا مشکل ہے، کیا نواز شریف کو بری کر دیا گیا ہے، ہم تب مداخلت کر سکتے ہیں جب ضمانت غلط بنیادوں پر دی گئی ہے، نواز شریف متواتر پیشیاں بھگت رہے ہیں ، آپ نے مرچنٹ آف وینس تو پڑھا ہوگا نیب قانون میں ضمانت کے تصور کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے تا کہ ہمیں آئینی اختیار استعمال نہ کرنے پڑیں،آصف سعید کھوسہ

پیر 14 جنوری 2019 21:07

ایون فیلڈ ریفرنس:نواز شریف ،مریم نواز،صفدر کی سزا معطلی کیخلاف نیب ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جنوری2019ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بار بار کہتا ہوں وائٹ کالر کرائم میں ثبوت کیلئے نیا قانون بنائیں حکومت نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف نے ضمانت کاغلط استعمال نہیں کیا ،ٹرائل کورٹ مسلسل پیش ہوتے رہے ہیں ،بدقسمتی ہے کہ آج بھی وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

پیر کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید، جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن(ر) محمد کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

اس دوران نیب کی جانب سے خصوصی پراسیکیوٹر اکرم قریشی جبکہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے جبکہ کمرہ عدالت میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما راجا ظفر الحق، اقبال ظفر جھگڑا، رفیق رجوانہ اور حافظ حفیظ الرحمن موجود رہے۔

سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ 17 قانونی نکات ہیں، جن پر عدالت نے بحث کا کہا تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے ہم اس پر بات کر چکے ہیں آپ بیٹھ جائیں پہلے نیب کا موقف سن لیتے ہیں،اس پر نیب پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ سزا معطلی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانونی تضاضے کو مدنظر نہیں رکھا، کیس کے میرٹ پر بات کی گئی جو کہ ہائیکورٹ کا اختیار نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ضمانت منسوخی کے قواعد کے بارے میں بتائیں۔

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہائیکورٹ کے شواہد کے مطابق سزا بھی نہیں بنتی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سارے حقائق پتہ ہیں اس سے ہٹ کر آپ کس بنیاد پر ضمانت منسوخی چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے پھر استفسار کیا کہ آپ بتادیں کن اصولوں پر ضمانت منسوخ ہوسکتی ہے، یہ بھی بتا دیں کہ کیا ہائیکورٹ کو سزا معطل کرنے کا اختیار تھا، جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ضمانت کے کیس میں میرٹ کو نہیں دیکھا جا سکتا لیکن ہائی کورٹ نے میرٹ کو دیکھا۔

اس کیس میں عدالت نے ٹرائل کورٹ کے میرٹ پر گئی جو کہ اختیارات سے تجاوز تھا۔اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ ضروری نہیں کہ یہ حالات واقعی ایسے ہوں، اذپ کن بنیادوں پر ضمانت منسوخی چاہ رہے ہیں۔اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ضمانت تو اب ہوگئی ہے ۔آپ ہمیں مطمئن کریں کہ ہم کیوں سزا معطلی کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیں۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں عدالت عظمیٰ کے مقدمات کی بنیاد پر ہی کہہ رہا ہوں، صرف ہارڈشپ کے اصولوں پر ضمانت ہوسکتی ہے جبکہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت ہارڈشپ کے اصولوں پر نہیں ہوئی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک چیز سمجھ لیں عبوری حکم کبھی حتمی نہیں ہوتا جبکہ عبوری حکم حتمی حکم پر اثر انداز بھی نہیں ہوتا۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے جس بنیاد پر نواز شریف کو سزا ہوئی، اسی بنیاد پر ان کی ضمانت بھی ہوئی، آپ نے تو اس بنیاد کو چیلنج ہی نہیں کیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ نے خود کہا کہ آبزرویشن حتمی نہیں، صرف انتہائی بیماری اور علالت کی وجہ سے ضمانت ہوسکتی ہے اور ہائیکورٹ نے غیرضروری طور پر تجاوز نہیں کیا۔اس پر وکیل نیب نے کہا کہ ہارڈشپ کی بنیادوں پر ضمانت نہیں ہوئی، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں۔جسٹس آصف کھوسہ نے مزید استفسار کیا کہ نواز شریف اس وقت آزاد شخص نہیں، جو شخص آزاد نہیں اس کی ضمانت کیوں منسوخ کرانا چاہتے ہیں ہائیکورٹ کا فیصلہ عارضی ہے، ہم اس میں مداخلت نہیں کر رہے،نواز شریف نے ضمانت کا غلط استعمال نہیں کیا اور ٹرائل کورٹ میں مسلسل پیش ہوتے رہے ،بدقسمتی سے نواز شریف سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نیکہا کہ نیب کو کیا مشکل ہے، کیا نواز شریف کو بری کر دیا گیا ہے، ہم تب مداخلت کر سکتے ہیں جب ضمانت غلط بنیادوں پر دی گئی ہے، نواز شریف متواتر پیشیاں بھگت رہے ہیں ، آپ نے مرچنٹ آف وینس تو پڑھا ہوگا اپ کہتے ہیں کہ ہائیکورٹ نے شواہد کا تفصیلی جائزہ لیا، کیا یہ ضمانت منسوخی کا اصول ہی جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ چین میں وائٹ کالر کرائم پر پھانسی لگا دی جاتی ہے، چین میں سمری ٹرائل ہوتا ہے اور فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بار بار کہتا ہوں کہ وائٹ کالر کرائم میں ثبوت کے لیے نیا قانون بنائیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب قانون میں ضمانت کے تصور کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے تا کہ ہمیں آئینی اختیار استعمال نہ کرنے پڑیں۔بعد ازاں عدالت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب ضمانت کی منسوخی کا گراؤنڈ نہیں دے سکا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دیتے وقت اختیار کا ناجائز استعمال نہیں ہوا۔