سپریم کورٹ نے نجی بجلی گھروں سے معاہدوں کی تفصیلات طلب کرلیں

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کس طرح کے معاہدے ہیں، آئی پی پیز کو کتنے زائد پیسے دیے گئے، کیا آپ نے غور کیا چیف جسٹس کا و فاقی وزیر سے سوال آئی پی پیز کی پالیسی مختلف ادوار میں آئی، یہاں حکومت ہی بجلی کی خریدار ہے ، آئی پی پیز کو کیپیسٹی اور انرجی پیمنٹ کرنا ہوتی ہے ،ْوفاقی وزیر عمر ایوب

پیر 14 جنوری 2019 22:48

سپریم کورٹ نے نجی بجلی گھروں سے معاہدوں کی تفصیلات طلب کرلیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جنوری2019ء) سپریم کورٹ نے نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں سمیت دیگر تفصیلات پر رپورٹ طلب کرلی۔ پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نجی بجلی گھروں یعنی انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو زائد ادائیگیوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے وفاقی وزیر سے استفسار کیا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کس طرح کے معاہدے ہیں، آئی پی پیز کو کتنے زائد پیسے دیے گئے، کیا آپ نے غور کیا چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ غریب عوام سے پیسے لے کر امیروں کو دیے جاتے ہیں، چاہے یہ بجلی بنائیں یا نہ بنائیں لیکن انہیں پیسے ضرور دینے ہیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گرڈ اسٹیشنوں میں بجلی نہیں پہنچ رہی، جس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے وفاقی وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے ان کو بجلی بنانے کے لیے فیول دینا تھا جو حکومت مہیا نہیں کرسکی۔وزیرِتوانائی عمر ایوب نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ آئی پی پیز کی پالیسی مختلف ادوار میں آئی، یہاں حکومت ہی بجلی کی خریدار ہے جبکہ آئی پی پیز کو کیپیسٹی اور انرجی پیمنٹ کرنا ہوتی ہے۔

عمر ایوب نے عدالت کو بتایا کہ گرمیوں میں بجلی کے تمام پلانٹس چلتے ہیں اور سردیوں میں کچھ پلانٹس بند ہو جاتے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہاکہ معاہدوں کے مطابق سستی بجلی خریدنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے جس کے تحت سب سے پہلے ہائیڈل اس کے بعد سولر پھر نیوکلیئر اور آخر میں تھرمل بجلی خریدی جاتی ہے۔عمر ایوب نے بتایا کہ حکومت پلانٹس سے بجلی نہیں خریدتی بلکہ انہیں کیپسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اپریل سے ستمبر تک سارے پلانٹس سے بجلی خریدی جاتی ہے جس پر عمر ایوب نے بتایا کہ نومبر سے جنوری تک ہائیڈل بجلی کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔سماعت کے دوران وقفہ ہوگیا تاہم وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی پی پیز کو ایک ارب 59 کروڑ ڈالرز کی کثیر ادائیگیاں کی گئیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ملک میں توانائی کی کمی کا سامنا اور طلب میں اضافہ ہورہا ہے، ابھی تو طلب 25 ہزار میگا واٹ کی ہے، تاہم مستقبل کے لیے پالیسی مرتب ہونی چاہیے۔عمر ایوب نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان کے پاس ونڈ انرجی سمیت دیگر وسائل بھی موجود ہیں جبکہ آئی پی پیز کے معاملے میں بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کی جاتی ہے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ آئندہ 12 سال بعد پاکستان میں بجلی کی طلب 55 ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائیگی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ملک میں نئے ڈیم بنائے جارہے ہیں جن سے نہ صرف پانی ملے گا بلکہ بجلی بھی پیدا کی جاسکے گی۔عدالت نے آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں سمیت دیگر معاملات کی تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 15 روز کیلئے ملتوی کردی۔