Live Updates

کابینہ اجلاس میں اپوزیشن سے ہونے والی بیان بازی کو فخر سے بتایا جاتا ہے

اجلاس میں صرف چار لوگ خاموشی سے بیٹھ کر اپنا کام کرتے ہیں یا کام کی بات کرتے ہیں

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 15 جنوری 2019 11:18

کابینہ اجلاس میں اپوزیشن سے ہونے والی بیان بازی کو فخر سے بتایا جاتا ..
اسلام آباد (اُردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15 جنوری 2019ء) : پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سے ہی حکومتی جماعت کو کئی قسم کے تنازعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کبھی حکومتی جماعت اپنے ہی نمائندوں کی شاہانہ پروٹوکول کی زد میں آجاتی ہے ، کبھی سرکاری افسران کے تبادلے حکومتی جماعت کے گلے کی ہڈی بن جاتے ہیں تو کبھی حکومتی نمائندوں کی بیان بازیاں ہی انہیں لے ڈوبتی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے سے قبل ان کے ووٹرز کا خیال تھا کہ نئی حکومت مہذب طریقے سے حکومت کرے گی اور پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ماضی کی بیان بازیوں کی روایت ٹوٹ جائے گی لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ کئی حکومتی وزرا کو اپوزیشن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے دیکھا گیا ، یہی نہیں بلکہ فیاض الحسن چوہان کی بیان بازی کے قصے بھی کسی سے ڈھکے چھُپے نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

وزرا کی بیان بازیوں کا تذکرہ کابینہ اجلاس میں بھی ہوتا ہے جہاں وزرا اپنی بیان بازیوں کو فخر سے بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سینئیر کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے حالیہ کالم میں لکھا کہ حکومتی ٹیم میں کیا خرابی ہے‘ ہم اب اس طرف آتے ہیں۔دنیا میں تین چیزیں ناتجربہ کاری‘ بے ہنری اورتکبر جہاں بھی اکٹھی ہو تی ہیں وہاں تباہی آ جاتی ہے۔

عمران خان کی ٹیم کے نوے فیصد کھلاڑیوں میں یہ تینوں خامیاں موجود ہیں‘ پوری قوم روز وزراءکے تکبر کے مظاہرے دیکھتی ہے‘ پوری بیورو کریسی ان کی ناتجربہ کاری کے ہاتھوں ذلیل ہو چکی ہے۔مجھے وزیراعظم آفس کے ایک صاحب نے بتایا‘ ہم نے آج تک سی سی آئی کے اجلاسوں میں عثمان بزدار اور محمود خان کی آواز نہیں سنی‘ یہ لوگ فائل تک نہیں پڑھ سکتے‘عثمان بزدار کتنے بڑے آئن سٹائن ہیں آپ ایک مثال ملاحظہ کیجئے‘ سیہون شریف میں بزدار قبیلے کے لوگ رہتے ہیں‘ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کو سیہون شریف بلانا چاہتے ہیں‘ عثمان بزدار نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے خود کہا ‘میں کراچی اور سیہون شریف آنا چاہتا ہوں‘ میں نے آج تک کراچی نہیں دیکھا‘ آپ اندازہ کیجئے ہم نے ملک کا سب سے بڑا صوبہ اس آئن سٹائن کے حوالے کر دیا‘ میں دل سے سمجھتا ہوں اگر جہانگیر ترین یا علیم خان بھی وزیراعلیٰ ہوتے تو آج یہ صوبہ مختلف ہوتا‘ آپ چودھری پرویز الٰہی کو ہی وزیراعلیٰ بنا دیں لیکن صوبے کو چلنے دیں ورنہ بیڑہ غرق ہو جائے گا۔

انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ دوسراہماری وفاقی کابینہ سیلفیوں اور سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ صرف چار لوگ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، محمد میاں سومرو اور عمر ایوب کابینہ کے اجلاس میں خاموش بیٹھتے ہیں یا پھر کام کی بات کرتے ہیں۔ باقی تمام وزراء کی اچیومنٹ یہ ہوتی ہے ہم نے فلاں بیان دے کر، ہم نے فلاں پریس کانفرنس کر کے اور ہم نے فلاں ٹاک شو میں فلاں کی بولتی بند کر کے کمال کر دکھایا۔

یہ لوگ سارا دن ٹویٹس بھی کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اگر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں قائداعظم، لیاقت علی خان اور ایوب خان بننا ہوگا اور یہ تینوں انتہائی سنجیدہ تھے‘ یہ سر پیچھے گرا کر کرسیوں پر نہیں جھولتے تھے‘ یہ روز سیلفیاں نہیں بناتے تھے‘ یہ روز پریس ٹاک نہیں کرتے تھے اور یہ ہروقت ٹویٹر پربھی نہیں ہوتے تھے‘ یہ خاموشی سے کام کرتے تھے اور دنیا کا کوئی شخص انہیں متکبر یا غیرسنجیدہ نہیں کہتا تھا لہٰذا حکومت کو اب سنجیدہ بھی ہونا پڑے گا اور عاجزی بھی اختیارکرنی پڑے گی ورنہ دوسری صورت میں جس دن عوام یا بیورو کریسی کسی ایک وزیر کے سامنے کھڑی ہو گئی اس دن یہ سارا سسٹم آندھی میں اخبار کا کاغذ بن جائے گا‘ یہ حکومت بری طرح بکھر جائے گی
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات