ٹویٹر صارف نے شوکت خانم اسپتال کے عملے کی غفلت کو بے نقاب کر دیا

وشال نامی لڑکی نے ٹویٹر پر شوکت خانم کینسراسپتال کے ڈاکٹرز اور عملے کی غفلت کی وجہ سے اپنی والدہ کو کھونے کی مکمل کہانی بیان کر دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 15 جنوری 2019 17:17

ٹویٹر صارف نے شوکت خانم اسپتال کے عملے کی غفلت کو بے نقاب کر دیا
لاہور (اُردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15 جنوری 2019ء) : شوکت خانم کینسر اسپتال سے متعلق ہم آئے روز سوشل میڈیا پر کئی اشتہارات دیکھتے ہیں جن میں شوکت خانم کو پاکستان کا سب سے پہلا اور بہترین کینسر اسپتال ہونے کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن حال ہی میں مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر وشال نامی ایک صارف نے شوکت خانم کینسر اسپتال کے عملے اور ڈاکٹرز کی غفلت کو بے نقاب کر دیا۔

وشال نے اسپتال کے عملے کی غلفت کی وجہ سےاپنی والدہ کی موت کی دکھ بھری کہانی سوشل میڈیا پر شئیر کی تو ہر کوئی آبدیدہ ہو گیا اور اسپتال کے عملے کو کوسنے لگا۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پہلے پیغام میں وشال نے کہا کہ اگر شوکت خانم کینسر اسپتال کو اپنی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اپنے عملے کی ناکامی اور غفلتوں کی بھی تشہیر کرنی چاہئیے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹرز بار بار مجھ سے ڈی این آر فارم پر دستخط کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، میرا خیال ہے کہ وہ اپنی غفلت اور کوتاہی کو چُھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں بتایا کہ شوکت خانم اسپتال کے کوالٹی ایشورنس ڈپارٹمنٹ نے بھی اپنے ڈاکٹرز کی ہی طرفداری کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔

وشال نے بتایا کہ ایک ریگولر ماسک کی وجہ سے میری والدہ کی آکسیجن سیچوریشن 66 پوائنٹس سے بھی کم ہو گئی جس کے بعد اسپتال کے عملے کو ان کے سائز کا ماسک ڈھونڈنے کے لیے 30 گھنٹے لگ گئے
۔ اس کے بعد ڈاکٹر قاسم آئے اور جب انہیں ماسک ڈھونڈنے میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں ملا تو اُلٹا انہوں نے ہمیں ہی کہنا شروع کر دیا کہ وہ میری والدہ کے ڈاکٹر نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ہماری مدد کر رہے ہیں۔

اور اس پورے وقت میں میری والدہ کے ڈاکٹر اسپتال ہی نہیں آئے۔
انہوں نے ہم سے یہ بحث بھی کی کہ کئی مرتبہ ایسا ہو جاتا ہے لیکن ہر مریض کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پر وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ غفلت اور کوتاہی ہو جاتی ہے اور بد قسمتی سے اس مرتبہ آپ کے کیس میں ہوئی ہے۔
وشال نے بتایاکہ میرے بھائی نے مجھے 10:18 پر فون کر کے بتایا کہ میری والدہ کی آکسیجن سیچوریشن کا لیول 66 پوائنٹس پر آ گیا ہے اور اس نے اس حوالے سے اسپتال کے عملے کو بھی آگاہ کر دیا تھا ، میں اور میرے خاوند 10:36 پر ہی اسپتال پہنچ گئے لیکن تب تک کسی نے بھی میری والدہ کا معائنہ نہیں کیا تھا۔

وشال کا کہنا تھاکہ نرس کو میری والدہ کے سائز کا ماسک لانے میں مزید 10 منٹ لگ گئے
اور اسی طرح ایک گھنٹہ گزر گیا لیکن میری والدہ کے علاج کی جس ڈاکٹر کی ذمہ داری تھی وہ ابھی تک اسپتال نہیں پہنچے تھے۔
وشال نے ڈاکٹر مظہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تعجب ہےکہ آپ اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ سکون سے کیسے سو جاتے ہیں جب آپ کو اس بات کا علم ہو کہ کوئی بچہ اپنی اکلوتی ماں کو کھونے کے قریب ہے اور یہ سب آپ کی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے ہوا ہے۔

لیکن شاید آپ کو اس چیز کا احساس ہی نہیں ہے کیونکہ آپ تو اپنے مریضوں سے ملاقات تک نہیں کرتے۔
وشال نے کہا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال پر میرا جو اعتماد تھا وہ ٹوٹ گیا ہے اور سب کچھ بے نقاب ہو گیا ہے۔ والدہ کی وفات کے بعد وشال نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ آپ کینسر سے تو زندہ بچ سکتے ہیں لیکن آپ کسی کی غفلت کے نتیجے میں اپنی زندگی ہار سکتے ہیں۔
وشال کی والدہ کینسر کی تشخیص کے بعد سے ہی شوکت خانم کینسر اسپتال سے اپنا علاج کروا رہی تھیں لیکن ڈاکٹر اور عملے کی غفلت کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا اور وہ جانبر نہ ہو سکیں۔ ان کی وفات کے بعد سے پورا خاندان صدمے سے دوچار ہے۔