ہائیکورٹ نے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کو ایک بار10 روز کے لیے بیرونِ ملک سفر کرنیکی اجازت دیدی

ملک میں نیب کا قانون چل رہا ہے، کیا اب ریاست کو نیب چلائے گی، پارلیمنٹ اور عدالتیں اپنا کام بند کردیں ‘ جسٹس فرخ عرفان خان قائد حزب اختلاف واپس نہیں آئیں گے یہ کیوں فرض کیا گیا‘ ریمارکس/ حمزہ شہباز کو واپس آ کر انکوائری میں پیش ہونے کا بھی حکم

بدھ 16 جنوری 2019 13:30

ہائیکورٹ نے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کو ایک بار10 روز کے لیے بیرونِ ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2019ء) لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کو ایک بار10 روز کے لیے بیرونِ ملک سفر کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ ملک میں نیب کا قانون چل رہا ہے، کیا اب ریاست کو نیب چلائے گی، پارلیمنٹ اور عدالتیں اپنا کام بند کردیں ۔لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس محمد فرخ عرفان نے حمزہ شہباز کی جانب سے اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

درخواست میں حمزہ شہباز نے وزارت داخلہ، امیگریشن حکام اور قومی احتساب بیورو کو فریق بنایا تھا۔سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے حمزہ شہباز کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز محب وطن شہری ہیں اور انہوں نے سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں بھی ملک نہیں چھوڑا۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہبازکی درخواست ناقابل سماعت ہے، درخواست گزار کو اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کرناچاہیے، لاہور ہائیکورٹ کودرخواست کی سماعت کااختیارنہیں ۔

جس ادارے نے نام ای سی ایل میں شامل کیا اس کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہے ۔عدالت نے استفسار کیا وفاق اسلام آباد تک محدود ہے ، عدالت کو غیرجانبدار رہنے دیں، ملک کو بنانا ری پبلک نہ بنائیں، ایف آئی اے ایئر پورٹ، ریلوے اسٹیشن پر بیٹھی ہی ایسی جگہوں پرعدالت کادائرہ اختیار کیوں نہیں۔ حمزہ شہباز نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ انہیں حکام کی جانب سے نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا۔

جب 17 نومبر کو برطانیہ جانے کے لیے ایئرپورٹ پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے جس کی وجہ سے وہ بیرونِ ملک سفر نہیں کرسکتے۔حمزہ شہباز نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے نام بلیک لسٹ میں شامل ہونے پر وضاحت کے لیے متعلقہ حکام کو متعدد مرتبہ خطوط لکھے لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔انہوں نے اپنی درخواست میں امکان ظاہر کیا کہ نیب میں جاری انکوائری کی وجہ سے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ میں نیب کی انکوائری میں باقاعدگی سے پیش ہوتا رہا ہوں، وزارتِ داخلہ کو بلاجواز کسی بھی پاکستانی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ۔حمزہ شہباز نے عدالت سے استدعا کی کہ آئین پاکستان کے تحت آزادانہ نقل و حرکت ہر شہری کا بنیادی حق ہے لہٰذامعزز عدالت بلاجواز ڈالا گیا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے۔

سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز کی درخواست ناقابل سماعت ہے، ہائیکورٹ نے خود ایک فیصلے میں یہ تعین کیا تھا کہ کن حالات میں کس شخص کی نقل و حمل روکی جاسکتی ہے۔اگر کسی نے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا ہو تو اسے باہر جانے سے روکا جاسکتا ہے۔

جسٹس فرخ عرفان خان نے ریمارکس دئیے کہ یاد رکھیے جو آج حکومت میں ہیں وہ کل اپوزیشن میں ہو سکتے ہیں، ہم اس ملک کو بنانا ری پبلک نہیں بننے دیں گے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز 21کروڑ 50 لاکھ روپے کے غبن میں ملوث ہیں اسی لیے حمزہ شہباز بیرون ملک فرار ہونا چاہتے ہیں۔اشتیاق اے خان نے عدالت میں حوالہ دیا کہ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار ملک سے باہر گئے تھے لیکن واپس نہیں آئے۔

صوبے کے وزیراعلیٰ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعلیٰ کا نام ڈالنے سے پوری دنیا میں منفی تاثرابھرے گا ، کیاایسی صورتحال میں قائد حزب اختلاف کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جا سکتا ہے، قائد حزب اختلاف واپس نہیں آئیں گے یہ کیوں فرض کیا گیا۔جسٹس محمد فرخ عرفان خان نے ریمارکس دئیے کہ نیب جس طرح کام کر رہا ہے اس سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججز بھی ناراض ہیں۔

جسٹس محمد فرخ عرفان خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں نیب کا قانون چل رہا ہے، کیا اب ریاست کو نیب چلائے گی، کیا اب پارلیمنٹ اور عدالتیں اپنا کام بند کردیں ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز نے اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا۔ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوانے کے لیے چیئرمین نیب سے رجوع کیا تھا۔

جسٹس فرخ عرفان نے ریمارکس دئیے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے طریق کار کے بارے میں بتایا جائے۔ عدالت عالیہ نے حمزہ شہباز کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے انہیں ایک مرتبہ صرف 10روز کے لیے بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دیتے ہوئے حکم دیا کہ واپس آکر انکوائری میں شامل ہوں جبکہ عدالت نے وفاقی حکومت سے 15روز میں جواب طلب کرلیا۔