خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے‘پیر علی رضا بخاری

صوفیاء کرام نے معاشرے کے اندر پر امن بقا باہمی کے ذریعہ محبت ،امن ، بھائی چارے ، رواداری کے ساتھ جینے کی تعلیم دی

بدھ 16 جنوری 2019 15:22

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2019ء) ممبرآزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ،سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف چیئرمین صوفی پیس فورم انٹرنیشنل پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ آرپار کے کشمیریوں کے درمیان روابط کو کھولا جائے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے دہشتگردوں پر قابو پانے میں مد د ملی ’’پیغام پاکستان ‘‘ بیانیہ امن وآتشی ، رواداری اور محبت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

دورہ امریکہ کے دوران وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں ممبرآزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ،سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ صوفیاء کرام نے معاشرے کے اندر پر امن بقا باہمی کے ذریعہ محبت ،امن ، بھائی چارے ، رواداری کے ساتھ جینے کی تعلیم دی، ان کی تعلیم کا تصور گناہوں سے نفرت لیکن گناہ گاروں سے پیار کرو ہے،دہشت گردی ایک گلوبل ایشو ہے۔

(جاری ہے)

یہ بیماری اور فساد ہے انسانیت کے خلاف مہم جوئی ہے اسکے کوئی بھی اسباب ہو سکتے ہیںلیکن ہمارے تمام پیر ، صوفی ،گدی نشین دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اورہم نے اتفاق و اتحاد سے اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے اتفاق و اتحاد میں ایسی طاقت رکھی ہے کہ آپ کوئی بھی مسئلہ آسانی سے حل کرسکتے ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان پلان کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ایک خوبصور ت اور تاریخی تھا۔ اس پر عملدرآمد میں کمی کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن اس سے دہشت گردی پر قابو پانے میں بڑی حد تک مدد ملی ہے ۔ اس پلان کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں پیغام پاکستان ایک اچھا بیانیہ ہے۔ اس بیانیہ کا اعلامیہ صوفیاء کرام ، طالب علموں ، یونیورسٹریز کے فیکلٹی ممبرز نے مل کر تیار کیا ہے تاکہ دہشت گردی کو مسترد اور امن وآتشی کے قیام کو معاشرے میں یقینی بنایا جا سکے۔

،16جنوری 2018کو صوفیا ء کرام ، یونیورسٹی اساتذہ اور صاحب رائے لوگوں نے پیغام پاکستان کی شکل ایسا قومی بیانیہ تیار کیا ہے جس کا مقصد معاشرے میں پرامن بقاء باہمی کے اصولوں کے تحت امن کو فروغ اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کو شکست دیناہے۔ معاشرے سے انتہا پسندی کے عملی خاتمے کے لیے اقدامات کے سوال پر پیر علی رضا بخاری نے بتایا کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں ہماری قوم ،فوج اوردیگر قومی اداروں نے بے مثال جانی ومالی قربانیاں دی ہیں ۔

70ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں قومی سلامتی کے اداروں ،پولیس ،سکیورٹی اداروں اور سویلین شامل ہیں کوئی بھی بڑا مقصد قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جنگ میں تو قربانی دینالازم ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہا پسندی کے خاتمہ کے جاری جدوجہد میںپیش رفت انتہائی مثبت ہے۔ علماء مشائخ میں اتفاق رائے ہے ۔ شروع میں ہمارے ڈیکلریشن پر دستخط کرنے والے علماء ،سکالر اور صوفیا کی تعداد 1800تھی جو بڑھ کر اب 5ہزار ہو چکی ہے۔

بے جا فتوئو ں کے اجراء کے ایشو پر سوال کے جواب میں پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے تحت ترتیب دیے گئے بیانیہ میں حق آزادی رائے کو شامل کیا گیا ہے ۔یہ بیانیہ 1973کے آئین کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ ۔اس میں انسانی حقوق ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن وآتشی کی بات کی گئی ہے۔اظہار آزادی رائے کی بات ہے اس سوچ کے پیچھے 73کا آئین ہے اور ہماری دین کی تعلیم ہے ۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی جہالت کا نام ہے۔ جب معاشرے میں تعلیم عام ہو گی تو کوئی بھی کسی کو کسی کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا۔ نئے تعلیمی نصاب کے حوالہ سے سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ مثبت کوششیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔لوگ رکاوٹیں بھی کھڑی کرتے ہیں۔ پیغام پاکستان کے اعلامیہ میں یہ شامل ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے خلاف تحقیری فتویٰ نہیں لگا سکتا۔

ہمیں بھلائی کی چیزوں پر توجہ دیکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری کمیونٹی مثبت کاموں کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہیے ،کشمیری عوام امن چاہتے ہیں۔ عالمی برادری نے حق خودارادیت دلانے کے حوالہ سے ان سے جو وعدے کیے ہیںکشمیری ان وعدوں کا ایفا چاہتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں ۔

ان کا سوال ہے کہ دنیا کے دیگر ایشو تو حل ہو رہے ہیں مسئلہ کشمیر کیوں حل نہیں ہو رہا ۔مسئلہ کشمیر سیاسی کے ساتھ ساتھ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے۔ اس مسئلہ کے حل میں پاکستان کی طرف سے سیاسی سفارتی حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت برقرار رہنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے ۔ہماری تحریک ایک آئینی،قانونی اور انسانی تحریک ہے۔

اس تحریک کی کامیابی میں ہم پاکستان سمیت دنیا بھر سے حمایت چاہتے ہیں۔ علاقائی امن کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل ہندوستان اور پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔ دونوں ملکوں کو اس مسئلہ کے حل کے مذاکرات کی میز پر مل بیٹھنا چاہیے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں اس مسئلہ کا حل دونوں ملکوں کی نسلوں اور پشتوں کے مفاد میں بھی ہے۔

دونوں ملک اس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں ۔دونوں ملکوں کا مل بیٹھنا بہت ضروری ہے۔ آئوٹ آف باکس مسئلہ کشمیر کے حل کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ ہمارے پاس یقینا اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیںلیکن ا س کے حوالہ بھی اس مسئلہ کے حل کے لیے راہیں نکل سکتی ہیں۔ اگر دونوں ملک مذاکرات کی میز پر بیٹھیں ۔ باہمی بات چیت سے مذاکرات کے بند راستے بھی کھل سکتے ہیں کوئی بھی چیزنا ممکن نہیں ہوتی میر ی گزارش ہے کہ پاکستان ، ہندوستان اور کشمیری قیادت کو مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنا ہوگا۔

یہ مسئلہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ پاک بھارت تجارتی و مذہبی روابط کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ’’ پیپل ٹو پیپل کنٹکٹ‘‘ رہنا چاہیے ۔تجارتی روابط ہونے چاہیے تاکہ اعتماد سازی ہو سکے مزید کراسنگ پوائنٹس سے کشمیریوں کو جموں وکشمیر کے درمیان کھچی لکیر کے آر پار آنے جانے کی آزادی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے وہ رشتہ داروں سے مل سکیں اس سے بھی چیزیں بہتر ہوتی ہیں۔ کشیدگی کم ہوتی ہے ۔اس سے بھی مسئلہ حل کی طرف جاتا ہے۔