18ویں ترمیم کے بعد زرعی شعبہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے‘

اب انسانی‘ اخلاقی اور سیاسی طور پر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ حکومت اس سلسلے میں راستہ نکالے اور مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

بدھ 16 جنوری 2019 15:37

18ویں ترمیم کے بعد زرعی شعبہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 جنوری2019ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد زرعی شعبہ صوبوں کے حوالے کردیا گیا ہے‘ تاہم اب انسانی‘ اخلاقی اور سیاسی طور پر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ حکومت اس سلسلے میں راستہ نکالے اور مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر محسن شاہنواز رانجھا نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت زراعت صوبوں کے پاس چلا گیا ہے تاہم ہارٹیکلچر وفاق کے تحت آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کینو ‘ آلو اور دیگر برآمدی فصلوں کے حوالے سے کارٹیلائزیشن ہو رہی ہے جس کا عام کاشتکاروں اور کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ جب ڈالر 121 روپے کا تھا تو ایک من کینو کی قیمت 800 روپے تھی۔

(جاری ہے)

اب ڈالر 140 کے قریب ہے لیکن ایک من کینو کی قیمت اب بھی 800 ہے۔ اس صورتحال میں برآمد کنندگان اور مڈل مین کو زیادہ فائدہ ہو رہا ہے۔ اگر ہم کینیا ٹی بورڈ ماڈل کو لاگو کریں تو ہمارے مسائل کم ہو سکتے ہیں۔

نکتہ اعتراض پر نواب یوسف تالپور نے کہا کہ زراعت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے‘ کسان کی خوشحالی میں ملک کی خوشحالی ہے۔ وفاقی حکومت پاسکو کے ذریعے آلو کی فصل کسانوں سے مناسب قیمت پر خریدے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے زرعی شعبے کو صوبوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ فوڈ سیکیورٹی کے نام پر وفاق زراعت کو دوبارہ اپنے زیر تصرف لینا چاہتا ہے۔ خالد مگسی نے کہا کہ بلوچستان میں پانی کی سطح پر 1000 سے 12سو فٹ نیچے چلی گئی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے زراعت پیشہ افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بجلی کے بل دینے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس معاملے کا ترجیحی بنیادوں پر حل نکالا جائے۔ اس کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج کے گلوبل ویلج میں بین الاقوامی سطح پر قیمتوں کے اثرات مقامی سطح پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہندوستان میں قیمت کم ہوگی یا رسد طلب سے زیادہ ہوگی تو پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں کم ہوں گی۔

اس صورتحال میں کاشتکار بھی پریشان ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے آئی ایم ایف سے جو معاہدے کئے ان میں زرعی مداخل پر ٹیکس شامل کئے گئے اور زرعی مداخل پر بھی جی ایس ٹی لگایا گیا تھا اس لئے پوائنٹ سکورنگ سے گریز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف اٹھارہویں ترمیم کی بات کی جاتی ہے۔ ہم بھی اس کا احترام کرتے ہیں لیکن اس میں ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے اور زراعت اب ایک صوبائی معاملہ ہے تاہم اب انسانی‘ اخلاقی اور سیاسی طور پر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ حکومت ایک راستہ نکالے اس لئے مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔