پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے سروس اسٹرکچر سے متعلق کیس کی سماعت

سپریم کورٹ کا ڈی جی اینٹی کرپشن کوجے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ٹھیکیداروں، دیگر حکام کے جوابات کا جائزہ لے کر دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم ٹھیکیدار اپنے ایک ارب 20 کروڑ روپے واپس لینا چاہتا ہے، میرے موکل کو حیرانی ہے کیسے ٹھیکے کو زائد نرخ قرار دیا گیا، درخواست ہے منصوبہ مکمل ہونے دیں ، نعیم بخاری منصوبے کی تکمیل میں تو کوئی امر مانع نہیں، کیا آپ نے اینٹی کرپشن کی رپورٹ پر جواب جمع کروادیا ، چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس یہ رپورٹ بورڈ کے چیئرمین اقبال حمید الرحمن کو بھیج دیں، یہ ساری رپورٹ غلط معلومات پر تیار کی گئیں،، اعتزاز ا،حسن اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی جے آئی ٹی رپورٹ صرف ابتدائی رپورٹ ہے، ابھی تفتیش اور ٹرائل ہونا ہے، جسٹس اعجاز الحسن

بدھ 16 جنوری 2019 23:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 جنوری2019ء) سپریم کورٹ نے ڈی جی اینٹی کرپشن کو پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے بارے میںجے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ٹھیکیداروں اور دیگر حکام کے جوابات کا جائزہ لے کر دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے سروس اسٹرکچر سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت میں ٹھیکیدار کے وکیل نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ ٹھیکیدار اپنے ایک ارب 20 کروڑ روپے واپس لینا چاہتا ہے، میرے موکل کو حیرانی ہے کہ کیسے ٹھیکے کو زائد نرخ قرار دیا گیا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس پروجیکٹ کو مکمل ہونے دیں۔چیف جسٹس نیریمارکس دیے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں تو کوئی امر مانع نہیں، کیا آپ نے اینٹی کرپشن کی رپورٹ پر جواب جمع کروادیا جس پر وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ رپورٹ بورڈ کے چیئرمین اقبال حمید الرحمن کو بھیج دیں، یہ ساری رپورٹ غلط معلومات پر تیار کی گئیں، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو سب عدالت کو تعین کرنا ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے ڈی جی اینٹی کرپشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر پرچے بنتے ہیں تو درج کریں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ پرچے سے کام رک جائے گا، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ کوئی کام نہیں رکے گا۔ اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز صاحب میں پی کے ایل آئی گیا ہوں وہاں کام کا معیار بہت کم ہے، کوئی کام اسٹیٹ آف دی آرٹ نہیں ہوا جس کے نعرے لگائے گئے، 22 ارب روپے خرچ ہو گئے یہ کم رقم نہیں، اتنی کوشش کے بعد ڈیم فنڈ کے لیے صرف 9 ارب روپے جمع ہوئے ہیں۔

سماعت میں منصوبے کے آرکیٹیکٹ کی جانب سے پیش آنے والے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منصوبے کے آرکیٹکٹ پر الزام لگا کہ ایک ہزار بیڈ کا ہسپتال تھا 400 بیڈ بنا رہے ہیں، ہسپتال ہم نے تو نہیں حکومت نے بنانا ہے۔جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی جے آئی ٹی رپورٹ صرف ابتدائی رپورٹ ہے، ابھی تفتیش اور ٹرائل ہونا ہے۔

اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) حسین اصغر کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حسین اصغر صاحب اس معاملے پر آپ نے کیا کرنا ہے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جن لوگوں کے نام آئے ہیں ان کا موقف لیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے اپنے افسران پر پورا اعتبار ہے، پاکپتن کیس میں اینٹی کرپشن نے رپورٹ دی ہے، یہ ہمارے ہیرے ہیں۔بعدازاں عدالت نے ڈی جی اینٹی کرپشن کو جے آئی ٹی کی روشنی میں ٹھیکیداروں اور دیگر حکام کے جوابات کا جائزہ لے کر دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔