پاکستان اور سعودی عوام کے تعلقات ناگزیر اور گہرے ہیں، مزید مضبوط بنانے کیلئے عوامی روابط کو تقویت دینے کی ضرورت ہے،سابق سعودی سفیر ڈاکٹر علی سعید عاوداسیری

سعودی عرب اور ایران کے پاس تعلقات کی بہتری کیلئے ایک دوسرے سے بات کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، چیئرمین ایرانی مطالعہ برائے بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر الاسلامی پاکستان تہران اور ریاض کے تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو پھر اسے دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات کی نوعیت کو سمجھنا چاہئے،ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا تقریب سے خطاب

جمعرات 17 جنوری 2019 00:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2019ء) پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی سعید عاود اسیری نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام کے درمیان تعلقات ناگزیر اور گہر ے ہیں،پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے عوامی روابط کو تقویت دینے کی ضرورت ہے جبکہ ایرانی مطالعہ کے بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین ڈاکٹر الاسلامی نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے پاس اپنے تعلقات بہتر بنانے کیلئے ایک دوسرے سے بات کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی ملک اپنے پڑوسیوں کا انتخاب یاانہیں تبدیل نہیں کرسکتا۔

بدھ کوپالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی ) کے زیر اہتمام ’سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کے خدوخال ‘ کے عنوان سے ایک خصوصی لیکچر منعقد کیا گیا ۔

(جاری ہے)

لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی سعید عاود اسیری نے کہا کہ سعودی عرب کے تعلقات کا احاطہ تین الفاظ میں کیا جا سکتا ہے، منفرد، گہر ے اور پائیدار ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقاتر ناگزیر ہیں جس کی کوئی حدد نہیں ہے ۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان عوامی روابط بڑھانے ، نجی شعبے کے ساتھ تعلقات میں بڑھائو، اور تعلیمی اداروں کے ساتھ روابط تیز کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ آج سعودی عرب میں ایک متحرک اور نوجوان قیادت ہے جو پاکستان کے عوام کے لئے زیادہ محبت اور پیار رکھتی ہے۔

سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے قومی ایشوز جیسے کشمیر پر پاکستان کے موقف کی بین الاقوامی فورموں پر تعید کی اور 2005 میں زلزلے کے دوران مشکل وقت میں غیر معمولی معاشی مدد کی ۔ موجودہ صورتحال میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے 6 ارب ڈالر کا تعاون کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقصادی تعاون کے اگلے دور میں کرائون پرنس محمد بن سلمان اپنے دورہ پاکستان میں جلد اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کریں گے جس میں آئل ریفائنری اور پیٹروکیمیکل کمپلیکس کے ساتھ ساتھ توانائی اور کان کنی کے شعبوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔

چیئرمین ایرانی مطالعہ برائے بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ ریاض ڈاکٹر الاسلامی نے کہا کہ 1979 ء کے انقلاب کے بعد سے سعودی ایران تعلقات میں بہت سے اُتار چڑھائو آئے ۔ عرب سپرنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں بہت زیادہ اظافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ، ہمارے پاس ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے اور اعتماد کے فقدان کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر تہران مثبت طور پر آگے بڑھے تو باقی پڑوسی ممالک بھی یقینی طور پر مثبت جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ریاض اور تہران دونوں کو اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ دونوں اپنے ساتھ مل کر لوگوں اور خطے کے لئے استحکام اور خوشحالی کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب امن اور استحکام پر مبنی بہتر تعلقات رکھنا چاہتا ہے اور اپنے پڑوسیوں اور بیرونی دنیا کے ساتھ کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتا۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ نے کہا کہ اگر پاکستان تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو پھر پاکستان کو دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات کی نوعیت کو سمجھنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی معیشت سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو اپنے انسانی وسائل تیار کرنا ہوں گے۔