اسلام آباد کے بڑے پبلک پارکس میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب زیر غور ہے‘ عوام کو چوکس رہنا ہوگا ،قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات

مشکوک افراد نظر آنے پر پولیس کو آگاہ کرنا ہوگا، عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کردہ مسابقتی انڈیکس میں پاکستان107ویں نمبر پر ہے،کچرے کو تلف کرنے کے لئے اراضی کے حصول پر کام ہو رہا ہے‘ مارگلہ ہلز ٹریلز پر روشنی کا انتظام جانوروں کے قدرتی مسکن کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے،اسلام آباد فوڈ سیفٹی ایکٹ 2018ء تیار ہے جسے جلد ایوان میں پیش کیا جائے گا ،ْوزراء کے جوابات مالی سال 2017-18ء کے دوران ملک کو مجموعی طور پر 1652 ارب 20 کروڑ روپے کا ریونیو حاصل ہوا ہے ،ْوزارت خزانہ بلاک شناختی کارڈز کھولنے کے حوالے سے نظام کار کو سہل اور آسان بنایا جائے ،ْ سپیکر کی وزارت کو ہدایت طاہر داوڑ مرحوم کی شہادت قومی سانحہ ہے ‘ جب تک قاتل گرفتار نہیں ہوتے اس وقت تک ادارے چین سے نہیں بیٹھیں گے ،ْ علی محمد خان

جمعرات 17 جنوری 2019 16:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جنوری2019ء) قومی اسمبلی کو بتایاگیا ہے کہ اسلام آباد کے بڑے پبلک پارکس میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب زیر غور ہے‘ عوام کو چوکس رہنا ہوگا ، مشکوک افراد نظر آنے پر پولیس کو آگاہ کرنا ہوگا، عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کردہ مسابقتی انڈیکس میں پاکستان107ویں نمبر پر ہے،کچرے کو تلف کرنے کے لئے اراضی کے حصول پر کام ہو رہا ہے‘ مارگلہ ہلز ٹریلز پر روشنی کا انتظام جانوروں کے قدرتی مسکن کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے،اسلام آباد فوڈ سیفٹی ایکٹ 2018ء تیار ہے جسے جلد ایوان میں پیش کیا جائیگا۔

جمعرات کو وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت علی محمد خان نے وزارت داخلہ کی جانب سے ایوان کو بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں پبلک پارکس کی سکیورٹی کے لئے ایم سی آئی نے لائٹس کی مرمتی‘ سکیورٹی سٹاف میں اضافے سمیت دیگر اقدامات اٹھائے ہیں۔

(جاری ہے)

سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب بھی زیر غور ہے۔ پولیس اہلکاروں کی تعداد کو بڑھایا گیا ہے۔ سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت لگائے جانے والے بعض کیمرے غیر فعال ہیں،مقامی پولیس کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں آنے والے پارکس میں خواتین اور بچوں کے ہمراہ آنے والوں کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے غیر معمولی طور پر چوکس رہیں اور گشت بڑھائیں۔

وزیر پارلیمانی امور انجینئر علی محمد خان نے بتایا کہ ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے عالمی مسابقت انڈیکس 2018ء پر تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کی 140 ممالک میں درجہ بندی 107ہے‘ جی سی آئی میں کم درجہ کی وجوہات میں پالیسی عدم استحکام‘ ٹیکس شرحیں اور ضوابط‘ تجدید کی ناکافی استعداد‘ فنانس تک کم رسائی‘ غیر موزوں بنیادی ڈھانچہ اور نظم و نسق کے مسائل شامل ہیں۔

2014ء میں یہ درجہ 144 ممالک میں 129واں تھا۔ حکومت نے درجہ بندی میں بہتری کے لئے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ فنانشل سسٹم 109 سے 89 درجہ پر آگیا ہے۔ صحت کے شعبہ میں درجہ بندی میں بہتری آئی ہے۔ ادارے آہستہ آہستہ بہتری کی طرف آرہے ہیں جن شعبوں میں تنزلی ہوئی ہے ان کی بہتری کے لئے کوشاں ہیں۔وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے ایوان کو بتایا کہ اسلام آباد میں ایم سی آئی کام کر رہی ہے۔

آئی۔ 12 میں 2001ء سے کچرے کو ڈمپ کیا جارہا ہے۔ جب میرے علم میں آیا کہ 600 ٹن یومیہ کچرا آئی۔ 12میں جارہا ہے تو ہم نے اس معاملے کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اس کو اسلام آباد کی حدود سے باہر ڈمپ کرنے کا پروگرام ہے لیکن ابھی تک اس مقصد کے لئے اراضی حاصل نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں میں معاملہ مقامی سطح پر دیکھا جاتا ہے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ اسلام آباد کے مارگلہ ہلز ٹریلز کے شروع میں باتھ رومز ہیں تاہم درمیان اور آخر میں باتھ رومز کی سہولت موجود نہیں۔

انہوں نے کہا کہ باتھ روم کی صفائی روزانہ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹریکس پر روشنی کے انتظامات کا جائزہ لیا جارہا ہے لیکن ماہرین کہہ رہے ہیں کہ رات کو ٹریلز پر روشنی کا انتظام جانوروں اور پرندوں کے قدرتی ماحول اور مسکنکے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے ایوان کو بتایا کہ طاہرہ اورنگزیب کے جواب میں جو تحریری جواب دیا گیا ہے اس حوالے سے مزید اپ ڈیٹ آئی ہے۔

انہوں نے ایوان کو بتایا کہ فوڈ سیفٹی ایکٹ کا مسودہ تیار کرکے متعلقہ وزیر کو بھجوا دیا گیا ہے۔ بہت جلد اسے ایوان میں پیش کیا جائے گا۔ اجلا س کے دور ان وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے ایوان کو بتایا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں عوام کو شناختی کارڈ کے حصول میں سہولت فراہم کرنے کے لئے حکومت نے 19 نئے مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے عوام کی شناختی کارڈ کے حصول کے حوالے سے مشکلات کا بڑی حد تک ازالہ ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں اس وقت نادرا کے 559 رجسٹریشن مراکز قائم ہیں۔ قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزارت خزانہ کی جانب سے تحریری طور پر بتایا گیا کہ مالی سال 2017-18ء کے دوران مجموعی طور پر 1652 ارب 20 کروڑ روپے کا ریونیو حاصل ہوا ہے جس میں 608 ارب 30 کروڑ کسٹم ڈیوٹی‘ 815 ارب 20 کروڑ سیلز ٹیکس‘ 10 ارب 40 کروڑ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور 218 ارب 30 کروڑ ڈبلیو ایچ ٹی شامل ہیں۔

اجلاس کے دور ان چوہدری برجیس طاہر کے مرحوم طاہر داوڑ کے اغواء اور قتل کی تحقیقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر مملکت علی محمد خان نے بتایا کہ طاہر داوڑ ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں پولیس‘ فوج سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں اور سویلین افراد کی جانوں کے نذرانے دیئے۔ 60 سے 70 ہزار شہداء کی قربانیوں سے دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی۔

فوج اور ادارے سب حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ طاہر داوڑ کی جان کا ازالہ تو ممکن نہیں۔ تحقیقات جاری ہیں۔ دشمن مسلسل ہمارے خلاف حرکت میں ہے۔ کے پی کے کے لوگ بے گھر ہوئے۔ طاہر داوڑ کی شہادت قومی سانحہ ہے۔ جب تک قاتل گرفتار نہیں ہوتے ادارے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس حوالے سے جب بھی حتمی تفصیلات سامنے آئیں ایوان کو آگاہ کیا جائے گا۔

رانا ثناء اللہ کے ضمنی سوال کے جواب میں وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ آئی ایس آئی ایسا ادارہ ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے، پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ ماضی میں بغیر ویزوں کے بھارت کے لوگ مری اور اسلام آباد آتے رہے۔ کہیں نہ کہیں کمزوری رہنا انسانی جبلت ہے۔ ہمارے اداروں کے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ہمارے بچوں کے تحفظ کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔

اجلاس کے دور ان وفاقی وزیر خسرو بختیار نے تحریری جواب میں بتایا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران مقامی اور بیرونی امداد کے تحت پی ایس ڈی پی کیلئے مختص کی گئی رقم میں سے 381 ارب روپے کم خرچ ہوئے۔تحریری جواب میں کہاگیا کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران تین ہزار چار سو اکاون ارب روپے مختص کیے گئے۔ تحریری جواب میں کہاگیا کہ گزشتہ پنچ سال کے دوران تین ہزار ستر ارب روپے پی ایس ڈی پی پر خرچ کیے گئے۔

اجلاس کے دور ان وزیر مملکت نے ایوان کو بتایا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے جعلی شناختی کارڈز کا مسئلہ رہا ہے اب سسٹم کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ ایشو کو حل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ جب سے شہریار آفریدی نے چارج سنبھالا ہے تو معاملات میں بہتری آئی ہے۔ یہ مسئلہ ایک دو دن میں حل نہیں ہو سکتا‘ اس پر وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

فصیح اللہ کے ضمنی سوال پر وزیر مملکت نے کہا کہ لوئر دیر میں 1459 کارڈز بلاک ہوئے تھے جن میں 1426 پاکستانیوں کے نہیں تھے جنہیں بلاک کیا گیا جبکہ 33 عدم حاضری کی وجہ سے بلاک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہریار آفریدی کے ساتھ یہ معاملہ ترجیحی بنیادوں پر اٹھایا جائے گا جس پر سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ بلاک شناختی کارڈز کو کھولنے کے نظام کو سادہ اور آسان بنانا چاہیے تاکہ لوگوں کے مسائل حل ہوں۔

نصیبہ چنا کے سوال پر وزیر مملکت نے ایوان کو بتایا کہ ملک بھر میں پاسپورٹ کے 162 دفاتر کام کر رہے ہیں۔ نئے آفسز کھولنے کے حوالے سے ابھی کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے تاہم کسی رکن کی جانب سے نشاندہی یا ضرورت پڑنے پر اس حوالے سے کام ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے علاقے جہاں سے زیادہ تعداد میں لوگ مزدوری کے لئے ملک سے باہر جا رہے ہیں ان علاقوں میں پاسپورٹ فیس کم کرنے پر کام ہو رہا ہے۔

مہیش کمار کے سوال پر وزیر مملکت نے کہا کہ تھرپارکر میں پاسپورٹ آفس کو بند نہیں کیا جارہا۔ اس معاملے پر شہریار آفریدی سے بھی بات کی جائے گی اور ان کے ساتھ معاملہ اٹھایا جائے گا۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ کے ضمنی سوال پر وزیر مملکت نے ایوان کو بتایا کہ خواتین کے شناختی کارڈز کے حوالے سے تفصیلات نادرا سے حاصل کرکے ایوان کو آگاہ کیا جائیگا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے بتایا گیا کہ کے فور منصوبے کے پہلے فیز کے لئے وفاقی حکومت کا مختص فنڈ سندھ حکومت کو ادا کردیا گیا۔وزرات خزانہ نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ ایکنک نے وفاقی اور سندھ حکومت نے درمیان مساوی حصہ کے تحت نصف رقم ادا کردی ہے۔ وزرات خزانہ نے کہاکہ پچیس ارب پچپن کروڑ میں سے بارہ ارب 77 کروڑ روپے ادا کردیئے گئے۔