فراہمی انصاف میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی خدمات کو یاد رکھا جائیگا ،ْ اٹارنی جنرل انور منصور

چیف جسٹس نے صحت تعلیم اور پانی کے معاملات پر شاندار فیصلے دئیے ،ْ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب آرٹیکل 184-3 کا سب سے زیادہ استعمال چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیا، ،ْ وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل کامران مرتضیٰ ججز کو ہٹانے کے طریقہ کار میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ،ْامان اللہ کنرانی

جمعرات 17 جنوری 2019 16:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جنوری2019ء) اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور نے کہا ہے کہ فراہمی انصاف میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی خدمات کو یاد رکھا جائیگا۔ جمعرات کو چیف جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس کا آغاز کا تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل انور منصور نے کہاکہ فراہمی انصاف میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی خدمات کو یاد رکھا جائیگا۔

اٹارنی جنرل انور منصور نے کہاکہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 20 سال تک بطور خدمات سر انجام دی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ چیف جسٹس نے صحت اور تعلیم کے معاملات پر نوٹسز لیے ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ چیف جسٹس نے صحت تعلیم اور پانی کے معاملات پر شاندار فیصلے دئیے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ چیف جسٹس کو نوٹسز پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل نے کہاکہ چیف جسٹس نے نوٹسز بنیادی حقوق کے تحفظ کی خاطر لیے ۔

وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل کامران مرتضی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 184-3 کا سب سے زیادہ استعمال چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیا۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہاکہ میں بھی آرٹیکل 184-3 کے اختلاف کرنے والوں میں شامل ہوں۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہاکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی نیت پر کوئی شعبہ نہیں۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 184-3 کی حدود و قیود کا معاملہ حل ہونا چاہیے۔

انہوںنے کہاکہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ حل کرنے کی سنگین ضرورت ہے،پاکستان میں کنٹرولڈ میڈیا ایک حقیقت ہے۔ انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس نے بہت غیر معمولی کام کیا۔انہوںنے کہاکہ کیا سپریم کورٹ بطور ادارہ غیر معمولی کام جاری رکھ سکے گا۔ انہوںنے کہاکہ اداروں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس ثاقب نثار بہت قابل شخصیت ہیں۔

انہوںنے کہاکہ سماعتوں کے دوران کچھ وکلاء کی دل آزاری بھی ہوئی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی ن ے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پچھلے کچھ عرصے سے ججز کے لہجے میں ترشی اس حد تک بڑھ گئی کہ جو عدالت اور وکیل کو بنیادی مقصد سے ہٹا دیتی ہے۔امان اللہ کنرانی نے کہاکہ وکیل کو حقائق بیان کرنے اور دلائل دینے کا موقع نہیں دیا جاتا۔

امان اللہ کنرانی نے کہاکہ عدلیہ اور بار ایک گاڑی کے پہیے لیکن اب ایک پہیہ صرف اضافی ہے۔امان اللہ کنرانی نے کہاکہ ازخود نوٹس کی کثیر تعداد سے عام مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے۔امان اللہ کنرانی نے کہاکہ ازخود فیصلے پر نظر ثانی یا اپیل کا حق دیا جانا چاہیے۔امان اللہ کنرانی نے کہاکہ وکلاء اور ججوں کے درمیان بے تکلف جملوں کا تبادلہ سائلین کے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے۔

امان اللہ کنرانی نے کہاکہ حکومتی اور انتظامی امور میں بے جا مداخلت سے ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ججز کی تقرری کا طریقہ درست نہیں۔امان اللہ کنرانی نے کہاکہ ججز کو ہٹانے کے طریقہ کار میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔امان اللہ کنرانی نے کہاکہ خلفا کا احتساب سر عام ہو سکتا ہے تو قاضی کا کیوں نہیں۔انہوںنے کہاکہ دوسرے ممالک میں ججز کا محاسبہ پارلیمنٹ کرتی ہے۔امان اللہ کنرانی نے کہاکہ کئی ججز سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلوں کیبعد چلے گئے مگر اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک ایک جج کو الزامات سے مبرا قرار دیا گیا۔ امان اللہ کنرانی نے کہاکہ اس عمل سے سپریم جوڈیشل کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔