نیب کے تفتیشی افسران تفتیش کے اہل ہی نہیں، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ

نیب والے دو دو سال انکوائریاں کرتے ہیں نتیجہ زیرو ہوتا ہے، ڈی جی نیب خود پیش ہوکر وضاحت کریں، تاخیر کیوں ہورہی ہے،جسٹس احمد علی ایم شیخ

جمعرات 17 جنوری 2019 18:09

نیب کے تفتیشی افسران تفتیش کے اہل ہی نہیں، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جنوری2019ء) سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ نے قومی احتساب بیورو(نیب)کے افسران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ برسوں انکوائریاں چلتی ہیں، کئی تفتیشی افسر تبدیل ہوتے ہیں، نتائج کچھ بھی نہیں۔جمعرات کوسندھ ہائیکورٹ میں ایف بی آر سیلز ٹیکس کے نام پر کرپشن سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے ملزمان کے وکلا اور نیب پراسیکیوٹر کو تیاری کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے ملزمان کے خلاف ٹرائل کورٹ سے رپورٹ طلب کرلی اور ڈی جی نیب سندھ کو بھی 15 فروری کو طلب کرلیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی ایم شیخ نے نیب انکوائری میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب والے دو دو سال انکوائریاں کرتے ہیں نتیجہ زیرو ہوتا ہے، ڈی جی نیب خود پیش ہوکر وضاحت کریں، تاخیر کیوں ہورہی ہے، ہم قوم کے ساتھ مزید مذاق برداشت نہیں کرسکتے۔

(جاری ہے)

دوران سماعت چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے نیب کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سندھ کے ہر شہر کے حالات خراب ہیں، گلی اور سڑکوں کی بری حالت ہے، گٹر ابل رہے ہیں جبکہ پینے کا صاف پانی بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ کرپشن کرنے والوں کا کام چل رہا ہے نیب کا بھی کام چل رہا ہے، نیب والے دفتروں میں بیٹھ پر کام کرتے ہیں، جائے وقوعہ پر جاتے ہی نہیں۔انہوں نے کہاکہ نیب کے تفتیشی افسران تفتیش کے اہل ہی نہیں، اور ساتھ ہی عدالت میں موجود نیب کے تفتیشی افسر کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ابھی کیس میمو بنا دیں، کچھ آتا بھی ہے آپ کو یا نہیں، یہ سارا کام کس سے کراتے ہیں ۔

نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ سابق صوبائی وزیر قانون ضیاء الحسن لنجار کے خلاف کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی انکوائری جاری ہے، جس میں مزید دستاویزات اکھٹا کیے جارہے ہیں، ضیا الحسن لنجار کا ڈیفنس کراچی میں بنگلہ خریدنے کا بھی سراغ لگایا ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ضیاء لنجار کا فرنٹ مین کون ہے اس کو کیوں نہیں پکڑا، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ضیاء لنجار کا فرنٹ میں خان بہادر ہے، اس نے گرفتاری سے بچنے کے لیے ضمانت حاصل کرلی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فرنٹ مین اور ضیاء لنجار کے کیس کو منسلک کیا جائے، نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے مزید وقت مانگنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ مزید مہلت دی جائے تاکہ ملزم کیخلاف دستاویزات اکھٹا کرلیں۔اس موقع پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ محکمہ تعلیم میں کرپشن کے معاملے پر ایک ملزم نے پلی بارگین کی درخواست دی ہے، جس پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ کروڑوں روپے کی کرپشن والے سے 5 ہزار روپے رضا کارانہ واپس لے لیے، کیا 5 ہزار روپے بھی کوئی رقم ہوتی ہی ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سب سے زیادہ گڑبڑ نیب سکھر میں ہے، برسوں انکوائریاں چلتی ہیں، کئی تفتیشی افسر تبدیل ہوتے ہیں، نتائج کچھ بھی نہیں۔بعد ازاں عدالت عالیہ نے نیب سکھر میں زیر التوا انکوائریز کی مکمل تفصیلات طلب کرلیں اور ساتھ ہی محکمہ تعلیم، میونسپل کارپوریشن اور دیگر محکموں میں کرپشن کے معاملے پر تحقیقات مکمل کرکے 5 مارچ کو رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

اس کے علاوہ عدالت نے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے آبائی علاقے میں کرپشن کے معاملے پر نیب کو جلد تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔جس پر نیب نے عدالت کو بتایا کہ آغا سراج درانی کے علاقے گڑھی یاسین کے ترقیاتی منصوبوں کے مختص رقم کرپشن کی نظر ہوگئی، 32 ٹھیکیداروں اور 17 سرکاری افسران کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔