مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹنگ سے متعلق صد ر کے اقدام کے تحت رواں سال ایک لاکھ نوجوانوں کو کریش کورسز میں تربیت دی جائے گی،پاکستان کی سافٹ ویئر کی برآمدات 2023ء تک 30 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے

ہمارے نوجوانوں کو تیزی سے سیکھنے والے نظریے پر عمل کرنا چاہئے جس سے ہماری قسمت بدل جائے گی، چوتھا صنعتی انقلاب ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے،اس ابھرتے ہوئے انقلاب کے معاشی نتائج شاندار ہیں ، مستقبل کی 90 فیصد ملازمتوں کا کسی حد تک انحصار ڈیجیٹل لٹریسی پر ہوگا، صدر ڈاکٹر صدر عارف علوی کا شائع آرٹیکل

اتوار 20 جنوری 2019 23:40

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 جنوری2019ء) مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹنگ سے متعلق صد ر کے اقدام کے تحت رواں سال ایک لاکھ نوجوانوں کو کریش کورسز میں تربیت دی جائے گی جبکہ پاکستان کی سافٹ ویئر کی برآمدات 2023ء تک 30 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے ۔اتوار کو شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں صدر ڈاکٹر صدر عارف علوی نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چوتھا صنعتی انقلاب اب شروع ہو چکا ہے اور پاکستان کو اس تبدیلی کو اپناتے ہوئے ان ثمرات سے استفادہ کرنا چاہیے جو سامنے آنے ہیں۔

گزشتہ چند دہائیوں سے ٹیکنالوجی کے ڈیٹا اکٹھا کرنے اور پھر ملی سیکنڈز میں اربوں کی تعداد میں مداخل سے مفید معلومات اخذ کرنے کی صلاحیت غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے۔

(جاری ہے)

یہ بنیادی طور پر 10 مختلف شعبوں میں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کی کامیابیوں سے پہچانی جاتی ہے جن میں مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، انٹرنیٹ آف تھنگز، فائیو جی براڈ بینڈ، تھری ڈی پرنٹنگ، خودکار وہیکلز، کلاڈ کمپیوٹنگ، ادویات اور آگمینٹڈ ریئلیٹی شامل ہیں۔

مصنوعی ذہانت دوہرے استعمال والی ٹیکنالوجی ہے۔ آگمینٹڈ رئیلیٹی اور ورچوئل رئیلیٹی حقیقی دنیا کے بارے میں معلومات سے متعلق اعداد و شمار کو پیچھے چھوڑ دیں گے چاہے اس کا مقصد سفر ہو یا سرجری ہو کیونکہ جہاں سرجن بافتوں کی تہیں بیماری سے متاثرہ حصہ کی تلاش کے لئے چیڑ پھاڑ نہیں کرے گا کیونکہ سرجن آپریشن سے پہلے ہر چیز کو تین پہلوئوں سے دیکھ سکے گا۔

ڈاکٹر زندہ خلیوں کو امپلانٹ کر سکے گا جس میں جسم کے اندر تیار شدہ موثر ادویات کے لئے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ کمرشل ایپلی کیشن کے علاوہ اس کو فوج، فضائی جنگوں، ایویونکس، چھوٹے بمبوں، ڈرون کو مسلح کرنے، ڈس انفارمیشن مہمات اور سائبر سیکورٹی کے لئے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مشینوں کے بڑھنے کے ساتھ مثال کے طور پر انسان کی تھوڑی مداخلت کے ساتھ خودکار مشینیں فیصلے کر رہی ہیں، اس نئی حقیقت کو کچھ سمجھتے ہوئے اس کی خامیوں کا ادراک کیا گیا ہے اور 2018ء میں 10 بڑی کمپنیوں میں سے سات ایپل، ایمازون، ایلفا بیٹ، مائیکرو سافٹ، فیس بک، علی بابا اور ٹینسینٹس اس عشرے کے اقتصادی طاقت کے مرکز بن گئے ہیں۔

ایسے معاشرے جو چوتھے صنعتی انقلاب کے ٹیکنالوجی کے اثرات کے ساتھ مثبت انداز میں نمٹ رہے ہیں ان کا معاشی اور سماجی مستقبل بہت بہتر ہے۔ پاکستان کو اس نئی لہر کا ادراک کرتے ہوئے فعال ہونا چاہئے اور ہمارے نوجوانوں کو تیزی سے سیکھنے والے نظریے پر عمل کرنا چاہئے جس سے ہماری قسمت بدل جائے گی۔ چوتھا صنعتی انقلاب ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے،اس ابھرتے ہوئے انقلاب کے معاشی نتائج شاندار ہیں جبکہ مستقبل کی 90 فیصد ملازمتوں کا کسی حد تک انحصار ڈیجیٹل لٹریسی پر ہوگا۔

مصنوعی ذہانت سے پیدا ہونے والا گلوبل کاروباری حجم جو کہ 2017ء میں 692 ارب ڈالر تھا، 2018ء میں 1.2 ٹریلین تک پہنچ گیا اور 2022ء میں 3.9 ٹریلین تک پہنچنے کی پیشنگوئی ہے۔ آرٹیکل میں کہا گیا کہ اس تناظر میں سیلیکون ویلی میں پاکستانی برادری کے ساتھ میری بات چیت کے دوران انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر درست فیصلے کئے گئے تو پاکستان کی سافٹ ویئر کی برآمدات 2023ء تک 30 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔

یہ بھی امید ہے کہ اگر ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور اس پر زیادہ بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذہنی تربیت کی ضرورت ہے۔پاکستان کو زیادہ اچھا کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مستقبل میں عظیم انقلاب کے تناظر میں ہماری معیشت اور دفاعی نظام ہماری مہارتوں پر زیادہ منحصر ہے جو کہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔

صارف ہونے کی حیثیت سے ہم مجموعی طور پر حتیٰ کہ مشکل وقت میں بھی غیر ملکی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر پر انحصار کرتے ہیں حالانکہ ہمیں غیر معمولی اقتصادی شراکت داری اور ہماری اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے نئے نظام کے حصہ دار اور مینوفیکچررز ہونا چاہئے۔ ہم پاکستان کے لئے یہ نیا چیلنج تیار کرنے جا رہے ہیں تاہم ان کی مہارتوں کی دنیا بھر میں بڑی طلب ہوگی۔

مضمون میں مذید کہا گیا ہے کہ ہم جو سافٹ وئیر انجینئر تیار کر رہے ہیں وہ مارکیٹ کی طلب کے مطابق نہیں ہیں۔ اس نامناسبت کو ختم کرنے کے لئے ہماری یونیورسٹیوں میں ذمہ دارانہ اور دانشمندانہ نصاب کے ذریعے درستگی کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہوں جو کہ چانسلر کی حیثیت سے صدر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے تاہم ہماری فوری ضروریات کے تناظر میں یہ سافٹ ویئر کی دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

ہم نے موجودہ سافٹ ویئر انجینئرز کی معلومات کو بہتر بنانے اور مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹنگ سے متعلق صدر کے اقدام کے تحت رواں سال ایک لاکھ نوجوانوں کے لئے کریش کورسز میں نئے آنے والوں کو بھی تربیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پروگرام کو www.piaic.org پر دیکھا جا سکتا ہے۔ tam/tmc-nsr