میں کسی کو پھانسی نہیں دے سکتا ، 72 گھنٹے میں واقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے

جے آئی ٹی کو دی جانے والی ڈیڈ لائن کل شام پانچ بچے ختم ہو جائے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 21 جنوری 2019 16:13

میں کسی کو پھانسی نہیں دے سکتا ، 72 گھنٹے میں واقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے
لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 21 جنوری 2019ء) : وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا کہ واقعہ کہ اطلاع موصول ہوتے ہی میں ساہیوال پہنچ گیا ۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں میانوالی تھا جب واقعہ کی اطلاع موصول ہوئی۔ واقعہ پر اعلیٰ سطح کی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔ جے آئی ٹی کو تحقیقات کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی ۔ جے آئی ٹی کو دی جانے والی ڈیڈ لائن کل شام پانچ بجے ختم ہو جائے گی۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ کل شام پانچ بجے آئے گی تو کارروائی ہو گی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے فوری بعد ایک اور میٹنگ کریں گے۔ میں کسی کو پھانسی نہیں لگا سکتا۔ انکوائری رپورٹ کا انتظار کریں پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ سب صبر سے کام لیں ، آپ سب دیکھیں گے کہ ہم نے کیا کیا ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کو دو کروڑ روپے دینے اور بچوں کی کفالت کا ذمہ اُٹھانے کا اعلان کیا ہے۔

سانحہ ساہیوال میں وزیراعلیٰ پنجاب نے پُھرتی دکھائی اور زخمی بچوں کی عیادت کو پہنچے، انہوں نے واقعہ کا نوٹس لے کر کارروائی میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم بھی دیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان زخمی عمیر خلیل کی عیادت اور والدین اور بہن کی ہلاکت پر اظہار تعزیت کے لیے اسپتال پہنچے تو بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اُٹھانے کا اعلان کیا جس ان کے اس اعلان کی خوب پذیرائی کی گئی لیکن یہاں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ایک حرکت نے انہیں مشکل میں ڈال دیا۔

اسپتال میں زیر علاج والدین اور بہن کا ساتھ کھو دینے والے عمیر کی عیادت کو جانے پر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اپنے ساتھ پھولوں کو گلدستہ بھی لے گئے اور لے جا کر بچے کے پاس رکھ دیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی اس حرکت پر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیااور انہیں مشورہ دیا گیا کہ ہر جگہ جانے کے پروٹوکولز ہوتے ہیں جس کی پیروی کی جانی چاہئیے لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہئیے کہ پہلے معاملے کی نوعیت کو سمجھا کریں اور اس کے بعد کوئی قدم اُٹھایا کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی اس حرکت پر انہیں صحافیوں، تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی جانب سے بھی خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔