سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس، ساہیوال واقعہ کی مذمت، پنجاب حکومت سے انکوائری رپورٹ طلب

ساہیوال معاملے کی شفاف انکوائری کے لئے ہائی کوٹ کے سینئر جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے اور پیمرا مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والی تمام فوٹیجز فراہم کرے، قائمہ کمیٹی انسانی سمگلنگ کے واقعات پر تفصلی رپورٹ اور بریفنگ طلب، اسلام آباد کے تفریحی مقام پیرسوہاوا پر جانے والی فیملیز کو پولیس کی طرف سے حراساں کئے جانے پر برہمی کا اظہار، میونسپل کارپوریشن اسلام آباد اور سی ڈی اے کے مابین مالی، انتظامی اور قانونی تنازعات حل کرنے کی ہدایت

پیر 21 جنوری 2019 21:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 جنوری2019ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ساہیوال واقعہ کی مذمت اور اس پر غم اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور پنجاب حکومت سے انکوائری رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ معاملے کی شفاف انکوائری کے لئے ہائی کوٹ کے سینئر جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے اور پیمرا مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والی تمام فوٹیجز فراہم کرے، کمیٹی نے انسانی سمگلنگ کے واقعات پر تفصلی رپورٹ اور بریفنگ طلب کر لی، اجلاس میں اسلام آباد کے تفریحی مقام پیرسوہاوا پر جانے والی فیملیز کو پولیس کی طرف سے حراساں کئے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا جبکہ میونسپل کارپوریشن اسلام آباد اور سی ڈی اے کے مابین مالی، انتظامی اور قانونی تنازعات حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمان ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اراکین کمیٹی نے ساہیوال واقعہ کی مذمت اور شدید غصے، غم اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب حکومت سے انکوائری رپورٹ طلب کر لی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے معاملے پر تفصیلی بات بھی کی ہے جنہوں نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

قائمہ کمیٹی پنجاب حکومت کی طرف سے رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لے گی۔ ساہیوال واقعہ انتہائی دردناک اور انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ لواحقین کو انصاف ملنے تک کمیٹی معاملے کی پیروی جاری رکھے گی۔ اگر ذیشان دہشت گرد تھا تو سی ٹی ڈی نے حراست میں لینے کی بجائے قتل کیوں کیا۔ قائمہ کمیٹی نے معاملے کی شفاف انکوائری کے حوالے سے ہائی کوٹ کے سینئر جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کی ہدایت کی چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ انہوں نے آئی جی پولیس و ہوم سیکرٹری پنجاب اور وزارت داخلہ سے 12 نکات پر مبنی سوالات کے جواب طلب کئے ہیں، ایک ہفتے کے اندر کمیٹی کو رپورٹ فراہم کی جائے۔

سوالات میں پوچھا گیا ہے کہ مقتولین و خاندان کے خلاف کبھی کوئی ایف آئی آر درج ہوئی تھی یا نہیں۔ کیا مقتولین اور اس کے خاندان کا کسی سے کوئی تنازعہ یا دشمنی تھی۔ جب مقتولین نے سی ٹی ڈی پولیس کے کہنے پر گاڑی روک دی تھی تو قتل کیوں کیا گیا جبکہ مقتولین کی طرف سے کوئی مزاحمت بھی نہیں کی گئی اور 13 سالہ لڑکی کو قتل کرنا کیا عینی شاہد کو ختم کرنے کی ایک سازش تھی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ واقعہ سے عوام میں خوف و ہراس اور بے چینی پھیل گئی ہے اور پوری قوم اضطراب کا شکار ہے۔ اس طرح کے واقعات عوام میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس مقابلے دن دیہاڑے مین ہائی وے پر کس طرح ہو سکتے ہیں جس کو دنیا دیکھ رہی ہو۔ چیئرمین کمیٹی نے پیمرا سے قائمہ کمیٹی کو مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والی تمام فوٹیجز فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

اجلاس میں سینیٹر محسن عزیز کے ریئل اسٹیٹ (ریگولیشن اور ڈویلپمنٹ) بل2017ء، میاں محمد عتیق شیخ کے فیصل آباد ڈرائی پورٹ پر موبائل فون چوری ہونے کے واقعات کے حوالے سے عوامی اہمیت کے معاملے، ڈی جی ایف آئی اے سے کراچی پورٹ پر غیرقانونی ایم ایس حدید انٹرنیشنل کمپنی کے آپریشنز اور غیرقانونی انسانی سمگلنگ بالخصوص لیبیا کے ساحل پر 11 پاکستانیوں کے ڈوبنے کے واقعے کے علاوہ چیئرمین سی ڈی اے اور میئر میٹرپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد سے انتظامی، مالی اور لیگل ایشوز کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

فیصل آباد ڈرائی پورٹ پر موبائل فون کی چوریوں کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو رپورٹ فراہم کی گئی ہے وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ ایم ایس حدید انٹرنیشنل لمیٹڈ کمپنی کے غیرقانونی آپریشن کے حوالے سے ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ کچھ پوائنٹس ایسے ہیں جن کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ ایس ای سی پی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ یہ کمپنی رجسٹرڈ نہیں ہے اور قانون کے مطابق کسی بھی کمپنی کا ڈائریکٹر غیرملکی نہیں ہو سکتا۔

یہ کمپنی دبئی میں رجسٹرڈ ہے، قائمہ کمیٹی معاملے کی مکمل انکوائری کرے گی۔ ایس ای سی پی حکام نے بتایا کہ کچھ سپیلنگ میں مسائل تھے اس وجہ سے کہا گیا کہ کمپنی رجسٹرڈ نہیں ہے، یہ کمپنی رجسٹرڈ ہے۔ اس پر چیئرمین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس امر کی بھی انکوائری ہونی چاہئے کہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کو غلط معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔

آئندہ اجلاس میں چیئرمین ایس ای سی پی اور دیگر متعلقہ حکام کمیٹی کو معاملے بارے تفصیلی رپورٹ فراہم کریں۔ اجلاس میں ڈی جی بیوروآف امیگریشن کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر آئندہ اجلاس میں ڈی جی نے شرکت نہ کی تو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائیں گے۔ قائمہ کمیٹی کو معاملے پر تفصیلی بریفنگ دی جائے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بیورو آف امیگریشن کے خلاف بے شمار شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ سیکرٹری انسانی حقوق بھی کمیٹی کو معاملے پر تفصیلی بریفنگ دیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ غیرقانونی انسانی سمگلنگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ان کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ کمیٹی کو بتایا جائے کہ کتنے اوورسیز پروموٹر کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے۔

انسداد انسانی سمگلنگ کے متعلقہ ڈائریکٹر آئندہ اجلاس میں کمیٹی کو آگاہ کریں۔ ایف آئی اے بتائے کہ کتنے لوگوں کے خلاف پہلے ہونے واقعات میں ایکشن لیا گیا ہے، کتنے کیسز عدالتوں میں ہیں، کتنے لوگوں کو سزا دی گئی ہے اور اگر قوانین میں مسائل ہیں اور ترمیم کی ضرورت ہے تو تجاویز پیش کی جائیں۔ کمیٹی نے غیر قانونی ہیومن اسمگلنگ پر ایف آئی اے اور ڈی جی امیگریشن سے رپورٹ طلب کر لی۔

اجلاس میں اسلام آباد کے تفریحی مقام پیرسوہاوا پر جانے والی فیملیز کو پولیس کی طرف سے حراساں کئے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کی اشد ضرورت ہے مگر تفریحی مقامات پر جانے والوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کی پوچھ گچھ نامناسب ہے۔ لوگ اپنی فیملی کے ساتھ جاتے ہیں جن کے منہ سونگھے جاتے ہیں۔

نکاح نامے چیک کرنا کہاں کا قانون ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اسلام آباد پولیس مونال و دامن کوہ جانے والی فیملیز کو ناجائز تنگ نہ کرے۔ کمیٹی کو شکایات موصول ہورہی ہیں کہ پولیس فیمیلز کو تنگ کر رہی ہے ۔ عوام کو سہولیات دینا ہمارا فرض ہے، سستی سیرگاہیں بھی بنائی جائیں اور مونال جانے والی روڈ کو مزید کشادہ کیا جائے تاکہ حادثات کو بھی کنٹرول کیا جا سکے۔

کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں اسلام آباد سے پیرسوہاوا تک چیئرلفٹ کے منصوبے کی تفصیلات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں میونسپل کارپوریشن اسلام آباد اور سی ڈی اے کے مابین مالی، انتظامی اور قانونی تنازعات کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ حکومت نے جب سی ڈی اے اور میونسپل کارپوریشن کو علیحدہ ادارے بنا دئیے ہیں تو کارپوریشن کو فنڈ کے لئے سی ڈی اے کا محتاج کیوں بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا پریشان کن بات ہے کہ سی ڈی اے اور ایم سی آئی کے درمیان انتظامی و فنانس مسائل حل نہیں ہورہے۔ دو اداروں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے اسلام آباد کے عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں۔ ایم سی آئی اور سی ڈی اے دو ہفتوں کے اندر سارے اختلافی مسائل حل کریں۔ ایم سی آئی کو مالی معاملات میں خودمختار بنایا جائے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ وزارت خزانہ سی ڈی اے اور کارپوریشن کے مالی معاملات کو فوری حل کرے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ چاروں صوبوں میں فوڈ اتھارٹیز قائم ہو چکی ہیں جو لوگوں کو خالص خوراک کی فراہمی اور غیرمعیاری اور مضر صحت اشیاء کے تدارک کے لئے کام کر رہی ہے مگر اسلام آباد میں کوئی اتھارٹی قائم نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو گوشت اور دودھ جیسی مضر صحت اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا اسلام آباد میں علیحدہ سلاٹر ہائوس بنائے جائیں اس کے علاوہ کسی بھی جگہ جانوروں کا ذبح کرنا ممنوع ہو۔

انہوں نے کارپوریشن کو تین ماہ کے اندر سسٹم تیار کرنے کی ہدایت کی جس میں جانوروں کو ذبح کرنے والے قصائی اور ویٹرنری ڈاکٹرز بھی شامل ہونے چاہئیں۔ رکن کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ سٹیزن کلب عوام کی سہولت کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ ایک ہفتے میں فیصلہ کر کے کمیٹی کو رپورٹ دی جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے اسلام آباد کلب کی طرف سے ممبرشپ فیس میں اضافے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو سہولیات عوام کے لئے ہوتی ہیں ان کی فیس کیوں بڑھائی گئی ہیں۔

اسلام آباد کلب میں صحافیوں اور سرکاری ملازمین کے لئے خصوصی رعایت ہونی چاہئے اور ممبرشپ فیس زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ روپے تک ہونی چاہئے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اجلاس میں سینیٹرز محمد جاوید عباسی، حاجی مومن خان آفریدی، کہدہ بابر، سردار محمد شفیق ترین اور میاں محمد عتیق شیخ کے علاوہ سپیشل سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر عامر احمد، چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد، میئر میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد شیخ عنصر عزیز، ڈائریکٹر ایف آئی اے شجاع نوید، ڈپٹی ڈائریکٹر بیورو آف امیگریشن گل اکبر، ممبر اسٹیٹ سی ڈی اے، ممبر فنانس سی ڈی اے اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔