سانحہ ساہیوال: اپوزیشن اراکین سینیٹ کا وزیرقانون پنجاب کی برطرفی کا مطالبہ

ریاست عوام کی محافظ ہوتی ہے مگر 4شہریوں کو قتل کرکے ریاست ’’جلاد‘‘ بن گئی ایک خاندان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اوراوپر سے حکومت جھوٹ پے جھوٹ بول رہی ہے ، ایک بار نہیں چھ سات بار یوٹرن لیا گیا اگر مقتولین دہشت گرد تھے تو پھر خاندان کو دو کروڑ روپے کیوں دینے کا اعلان کیا گیا ہم گاڑیوں پر یہ لکھوا کے نکلیں کہ ہم اپنے بچوں کیساتھ ہیں، راجہ ظفر الحق ، سراج الحق ،رحمن ملک، مرتضی عباسی،عثمان کاکڑ ، شیری رحمن ودیگر سینیٹرز کی حکومت پر شدید تنقید اپوزیشن ساہیوال واقعہ پر سیاست نہ کرے ،وزیراعظم رات بھر سو نہیں پائے ، پولیس کو عبرتناک سزا دیں گے،ماڈل ٹاؤن اور بے نظیر کے واقعات کی تحقیقات یاد ہیں،حکومتی سینیٹرز

پیر 21 جنوری 2019 21:36

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 جنوری2019ء) سینیٹ میں اپوزیشن اراکین نے سانحہ ساہیوال پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست عوام کی محافظ ہوتی ہے مگر 4شہریوں کو قتل کرکے ریاست ’’جلاد‘‘ بن گئی ، ایک خاندان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اوراوپر سے حکومت جھوٹ پے جھوٹ بول رہی ہے ، ایک بار نہیں چھ سات بار یوٹرن لیا گیا ، اگر مقتولین دہشت گرد تھے تو پھر خاندان کو دو کروڑ روپے کیوں دینے کا اعلان کیا گیا ، سب سے پہلیوزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کو برطرف کیا جائے۔

پیر کو سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر خوش بخت شجاعت نے سابق ایم این اے علی رضا عابدی کے قتل کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اسے جس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا ہے اورابھی تک قاتلوں کے بارے میں کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے آخر کیا وجہ ہے کہ اسے گھر کے دروازے پر قتل کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مقتول کی والدہ نے تعزیت کے موقع پر کہا کہ دعا کرو کہ میری آنکھوں میں دجلہ و فرات کا پانی اتر آئے اس موقع پر انہوں نے سینیٹر علی رضا عابدی کی والدہ کی جانب سے اشتہار اجلاس میں پیش کئے۔

انہوں نے کہا کہ وہ آہنی ہاتھ کب آئیں گے جو ظالموں سے نمٹیں گے۔انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ سینیٹر علی رضا عابدی اور سانحہ ساہیوال کے قاتلوں کو گرفتار کرکے سخت ترین سزا دی جائے۔اس موقع پر سینیٹر رحمان ملک نے سابق سینیٹر ملک حاکمین کی وفات پر تعزیتی قرارداد پیش کی۔سینیٹر مرتضی عباسی نے کہا کہ سانحہ ساہیوال کا معاملہ بہت اہم ہے،اس پر ایوان میں بحث ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اتنے اہم معاملے کو آج زیر بحث نہ لایا گیا تو کل تک اس کی اہمیت ختم ہوجائے گی،یہ پاکستان کا مسئلہ ہے،اس حوالے سے تحریک التواء پیش کرنا چاہتا ہوں۔اس موقع پر قائدایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ سانحہ ساہیوال پر پوری قوم دکھی ہے اور اس پر بات ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے معاملے پر جے آئی ٹی بنائی ہے اور اس کی رپورٹ کل تک آجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایڈوائزری کمیٹی میں طے ہونے والے معاملات کو پہلے دیکھنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو ایڈوائزری کمیٹی کی میٹنگ نہ بلائی جائے۔انہوں نے کہا کہ سانحہ ساہیوال جیسے واقعات کے تدارک کیلئے تحریک التواء کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایوان میں ہاؤس کا ایجنڈہ بھی زیر بحث ہونا چاہئے۔

اپوزیشن لیڈر راجہ ظفرالحق نے کہا کہ سانحہ ساہیوال ایک سنگین واقعہ ہے اور جن لوگوں نے چار شہریوں کو قتل کیا وہ پولیس والے نہیں بلکہ سادہ کپڑوں میں تھے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا اور وزیراعلیٰ کو ساہیوال جانے کا کہا مگر بدقسمتی سے وزیراعلیٰ وہاں پر کچھ بھی نہ کہہ سکے۔انہوںنے کہا کہ ملک میں جے آئی ٹی کا ایک رواج بن گیا ہے،سابق چیف جسٹس ہر معاملے پر جے آئی ٹی بنانے کے احکامات دیتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایک مسئلے پر دو ایف آئی آر نہیں کاٹی جاسکتیں۔یہ بہت بڑا جرم ہے اس حوالے سے بننے والی جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں۔سینیٹ کی جانب سے ایک متفقہ فیصلہ جانا چاہئے تاکہ افسردہ لوگوں کے دکھی دلوں پر مرہم رکھا جاسکے۔سینیٹر شیری رحمان نے اس حوالے سے بحث میں لیتے ہوئے کہا کہ جب بھی کوئی معاملہ پیدا ہوتا ہے تو صوبہ کچھ کہتا ہے،مرکز کچھ کہتا ہے اور ٹوئٹر پر کچھ کہا جاتا ہے،لیکن اب کیمرہ سب حقائق بتا دیتا ہے حالانکہ گاڑی میں بچے اورخواتین تھیں۔

گاڑی کے شیشے بھی سیاہ نہیں تھے،لیکن اس قتل پر ایک جے آئی ٹی بنائی جارہی ہے جو ایک ڈرامہ ہے،جے آئی ٹی اور ایک ایف آئی آر کے بعد دوسری ایف آئی آر کی آڑ میں یہ ایک کور اپ ہے،چاہے راؤ انوار ہو یا کوئی اور ہو انسانی حقوق کی پاسداری ہونی چاہئے۔اب ہم سے لوگ پوچھ رہے ہیںکہ ہم گھر والوں کے ساتھ باہر نکلیں یا نہیں۔اب پاکستان میں کوئی محفوظ نہیں ہے۔

ریاست پناہ دینے والی ہوتی ہے ،پولیس والے اسکے اہلکار ہوتے ہیں۔اسکی فوری جوابدہی ہونی چاہئے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے،ظلم،جبر اور قتل ہے ایک خاندان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور ظلم یہ بھی ہے کہ حکومت نے بھی جھوٹ بولا ہے حالانکہ حکومت کا یہ دعویٰ تھا کہ جھوٹ نہیں بولے گی۔لیکن حکومت نے چھ سات بار جھوٹ بول کر یوٹرن لیا ہے۔

اگر یہ دہشتگرد تھے تو پھر خاندان کو دو کروڑ روپے کیوں دئیے گئے۔بچوں پر تو جنگل کے درندے بھی حملہ نہیں کرتے۔لیکن ہمارے ملک میں جنگل سے بدتر قانون بن چکا ہے،کل جب میں زخمی کئے جانے والے بچے کو ہسپتال ملنے گیا تو اس بچے سے آنکھیں نہیں ملا سکتا تھا بلکہ خود کو مجرم سمجھ رہا تھا۔اس واقعہ کے لئے مذمت چھوٹا لفظ ہے۔پنجاب کی حکومت نے جس طرح یوٹرن لئے ہیں اس سے ثابت ہوا ہے کہ وہ سنجیدہ نہیں ہیں ۔

دن دیہاڑے یہ قتل ہے فرض کریں یہ دہشتگرد ہیں بھی تو کیا اس طرح سڑک کے کنارے ان کو مارنا چاہئے اگر ایسا ہے تو عدالتوں کو بند کر دیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سی ٹی ڈی نے جس جس کو مارا ہے اس کی تحقیقات ہونا چاہئے یہ سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جب ساہیوال کا حادثہ ہوا تو کہا گیا ہم نے چار دہشتگردوں کو مار دیا ہے اور تین بچوں کو بازیاب کروا لیا یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ ایسا جھوٹ بولا جارہا ہے صوبائی حکومت اب تک ضد پر ہے کہ یہ دہشتگرد تھے حالانکہ فیملی اور علاقے کے لوگ کہہ رہے ہیں یہ دہشتگرد نہیں تھے پورا ملک سراپا احتجاج ہے پولیس پر حملے ہور ہے ہیں لیکن اگر سینیٹ سے حکمرانوں کو کوئی ایسا سخت پیغام نہ جائے تو پھر ہم صرف فاتحہ ہی پڑھنے کیلئے بیٹھے ہیں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے، سینیٹر عثمان کاکڑ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ چاہئے حکمران ہو یا غیر حکمران ہو جس نے اس واقعہ میں پولیس کے حق میں دلائل دینے ہیں اسکی مذمت کرتا ہوں انٹیلی جنس کے ادارے بے لگام ہیں جس کو چاہیں غدار قرار دیں یا دہشتگرد قرار دیں اور حکمرانوں سمیت کسی کی جرات نہیں کہ انکو لگام دیں یہاں لوگوں کے سرکاٹ دیئے گئے اور کہا جاتا ہے کہ ملک کا عظیم مفاد ہے اگر راؤ انوار کو سزا دی جاتی تو ایسے واقعات نہ ہوتے، وزیر قانون راجہ بشارت کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے اسکو برطرف کیا جائے جو اسکے لیے دلائل دیتا رہا، ملک سے جے آئی ٹی کلچر ختم ہونا چاہئے اور جن اہلکاروں نے یہ کام کیا ہے انہیں ایک ماہ کے اندر اندر سزا ملنی چاہئے سی ٹی ڈی کے افسران کے خلاف بھی ایکشن لینا چاہئے اور آپ سے سخت رولنگ آنی چاہئے، سینیٹر جہانزیب بادینی ساہیوال کے واقعہ کے پورے ملک کو ہلا کے رکھ دیا ہے یہ ماڈل ٹاؤن کا نمونہ نہیں ہونا چاہئے کیا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسے واقعات ہر روز ہوتے ہیں ،بلوچستان کے کونے کونے میں لاشین گر رہی ہیں لیکن کسی کو پرواہ نہیں لیکن وہاں کیڑے مکوڑے ہیں کچھ دن پہلے کوئٹہ میں دس لاشیں جن کے چہرے مسخ تھے لیکن کسی نے اور نہ ہی ایوان بالا نے کوئی پرواہ کی کل کی حکومت اور اس سے پہلے کی حکومت میں ایسا ہی ہورہا تھا اللہ کرے کہ اس حکومت میں کوئی کارروائی کی جائے، دھواں دھار تقریروں سے مسئلہ حل نہ ہوگا اپوزیشن اور حکمران بینچوں سے دو ممبران لے کر کمیشن بنانا چاہئے بلوچستان میں ایف سی اور پولیس کے ساتھ ساتھ عوام کی لاشیں گر رہی ہیں دو ماہ سے ایک ڈاکٹر اغوا ہوا ہے لیکن صرف رسمی کارروائی ہوتی ہے ہم اپنے گھر کو ان آرڈر کرنے بجائے دوسروں پر الزام لگاتے ہیں انہوں نے کہا کہ جتنی بھی جے آئی ٹیز بنی ہیں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے انسانی کی مذہب سے بالا تر ہو کر جہاں بھی حدت ہو اسکی مذمت کرنا چاہئے، مسلم امہ کا صرف نام ہے کسی کو ایک حوالے کی فکر نہیں ہے، سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ ملک زلزلوں کی زد میں ہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے ایک خاندان کو مار دیا گیا لیکن بچوں کے ساتھ سلفیاں بناکر کاررائی ڈالی جارہی ہے صوبے کے وزیر اطلاعات دو کروڑ روپے دینے کا اعلان کرتے ہیں لیکن وہ ہمیں بتا دیں کہ انسان کی جان کی کیا قیمت ہے جس چیز کو ختم کرنا ہوتا ہے اس پر جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے، نقیب اللہ کی جے آئی ٹی کی کیا رپورٹ آگئی ہے ہم چیئرمین آپ سے ایک رولنگ دیں کیا ہم گاڑیوں پر یہ لکھوا کے نکلیں کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ ہیں پولیس حفاظت کی علامت ہوتی ہے لیکن وہ خوف کی علامت بن چکی ہے پولیس ریفارمز کی بات کی جاتی ہے لیکن ناصر درانی کو کیوں نکالا گیا ہم سیاست نہیں کر رہے بلکہ انہیں آنے والی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں، سینیٹر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے لیکن یہاں ریاست جلاد بن گئی ہے چور ڈاکو کی بجائے پولیس سے خوف محسوس ہونے لگا ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹس پر یقین کی بجائے حقائق سامنے لانے چاہیں۔

سینیٹر کبیر نے کہا کہ راؤ انوار عدالتوں میں غنڈوں کی طرح آتا ہے تاہم لاہور کے اساتذہ کو ہتھکڑیوں میں پیش کیا جاتا ہے اور وہ مرتے وقت بھی ہتھکڑیوں میں ہوتا ہے،پولیس نے نجی ٹارچر سیل بنا رکھے ہیں،اگر پولیس نے ایسے لوگوں کو مارنا ہے تو ہمیں عدالتوں کو تالے لگا دینے چاہئیں،بلوچستان سے گمشدہ افراد اور دیگر واقعات پر بھی بات کی جائے،اگر ساہیوال کے مجرمان کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو یہ سلسلہ بند نہیں ہوگا،جے آئی ٹی پرانا طریقہ ہے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ ہمیں رویے بدلنے ہوں گے،وہ رویے ہونے چاہئیں کہ جو پارلیمان کی بات کریں،کیا70سال گزرنے کے بعد ہم سیکھتے ہیں کہ کیا ہم محفوظ ہیں کہ نہیں،ریاستی اداروں کو کس نے لائسنس دیا کہ بچوں کے سامنے والدین کو مار دیا جاتا ہے،کیا اداروں کا یہ کام رہ گیا ہے،یہ ذمہ داری چیف منسٹر کی ہے اور حکومتی وزراء کا بیان ہر تین گھنٹے بعد تبدیل کیا جاتا ہے۔

داعش سے انکار کرنے کے بعد اس واقعے کو داعش کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے،وزیراعلیٰ پنجاب کس بنیاد پر لگایا جاتا ہے اگر شہبازشریف وزیر اعلیٰ ہوتا تو پولیس کو لائن حاضر کیا ہوتا۔آئی جی پنجاب نے سٹوری کو کور کرنے کیلئے پوری رپورٹ تیار کی ہے،حکومت کا ہنی مون پریڈ گزر گیا ہے،ساہیوال کے واقعے کو جس طرح پنجاب حکومت نے ہینڈل کیا ہے وہ افسوسناک ہے،پنجاب حکومت واقعے کو دبانا چاہتی ہے۔

سینیٹر مولابخش چانڈیو نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب جاہل انسان ہے،اسے بتائیں کہ مرنے والے کے بچوںکو پھول پیش نہیں کئے جاتے۔فیصل جاوید نے کہا کہ وزیراعظم ساہیوال کے واقعے پر رات سو نہیں پائے اور پولیس کو عبرتناک سزا دیں گے اور پولیس کے ڈھانچے کی اصلاح کی جائے،اس پر سیاست نہ کریں،سبزہ زار بھی یاد ہے،ماڈل ٹاؤن کا واقعہ اور بے نظیر کے واقعے کی تحقیقات یاد ہیں،وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کل شام پانچ بجے آئے گی۔

اپوزیشن اپنا کردار ادا کرے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد متاثرین کو انصاف ملے گا۔حکومت اس واقعے پر ایک مثال قائم کرے گی۔پنجاب پولیس میں بھی اصلاحات لا رہے ہیں۔سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ہمیں ایسی واقعات کا حل چاہئے،ہمیں اس قانون سازی کرنی چاہئے،اس میں ملوث تمام افراد کو کٹہرے میں لایا جائے،وزیرقانون پنجاب نے حکومتی زبان استعمال کی،جے آئی ٹی کی رپورٹ تسلیم نہیں ہے،پولیس ریفارمز ہونی چاہئیں،ہم اس پر پوائنٹ سکورننگ نہیں کرتے۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ حکومت نے اسے سیاسی رنگ دیا ہے جبکہ وزیراعظم کے متعلق اس میں کوئی بات نہیں کی تاہم فیصل جاوید نے اسے سیاسی رنگ دیا ہے،کیا ہم سیاست کر رہے ہیں،نااہل شخص پنجاب پر مسلط کیا گیا ہے،حکمران میں خود فیصلہ کرنے کی قوت ہونی چاہئے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی عقل استعمال نہیں کی،وہ بچے اب آئندہ زندگی بھر اس سانحہ کو بھول نہیں پائیں گے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ واقعہ ایسی ریاست میں ہوا جو ریاست مدینہ کی بات کرتی ہے،میرے پاس الفاظ نہیں،ان کو قتل کرکے دہشتگردی کا لیبل لگا دیا گیا،چار لوگوں کو 32گولیاں ماری گئیں،ہمارا معاشرہ جنگل بن گیا ہے،ظلم کی انتہاء ہے کہ بچوں کے سامنے ان کے والدین کو مار دیا جاتا ہے۔کے پی کے میں گزشتہ دنوں ایسے لوگوں کو مارا گیا،کیا ریاستی اداروں کو مارنے کا لائسنس دیا گیا،کیا انہیں انسانی حقوق سے متعلق پڑھایا جاتا ہے،اگر ماورائے عدالت ایسے لوگوں کو مارا جاتا رہا تو عدالتیں بند کردیں،جے آئی ٹی کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہئے اور بے نامی ایف آئی آر ۔

وزیراعظم افسوس نہ کریں بلکہ ایکشن لیں۔سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوںگی۔ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔راؤ انوار کو پشت پناہی حاصل رہی،اس واقعے کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنا مناسب نہیں۔سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں،میں یقین دلاتا ہوں کہ ظلم کی رات ختم ہونے والی ہے۔

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ہم صرف باتیں کرتے رہیں گے اور ہم اس کے ذمہ دار ہیں،اس واقعے پر سینیٹ رو رہی ہے،ایسے واقعات کو کیسے روکا جاسکتا ہے،قانون کے ذریعے خوف پیدا کیا جاتا ہے اور پوری قوم کو خوف میں مبتلا کر دیاگیا ہے۔جے آئی ٹی قانون کی نظر میں کچھ نہیں،جے آئی ٹی کی رپورٹ ضمنی کا حصہ بن جاتی ہے،جے آئی ٹی فیشن بن گیا ہے،آئین میں جے آئی ٹی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ایک سینئر جج کی سربراہ میں بنایا جائی۔