ساہیوال کے واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے، جس طرح بچوں کے سامنے ان کے والدین کو مارا گیا انتہائی شرمناک اور اداروں کی نااہلی کو واضح کرتا ہے

مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا ایوان بالا میں اظہارخیال

پیر 21 جنوری 2019 21:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 جنوری2019ء) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ ساہیوال کے واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے، رائو انوار کو سزا ہو جاتی تو اس طرح کے واقعات پیش نہ آتے، جس طرح بچوں کے سامنے ان کے والدین کو مارا گیا انتہائی شرمناک اور اداروں کی نااہلی کو واضح کرتا ہے۔

جے آئی ٹی بنانے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے، واقعہ کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں عوامی اہمیت کے حامل معاملہ کے طور پر سانحہ ساہیوال پر سینیٹ کے مختلف ارکان نے اظہار خیال کیا۔ پارلیمانی لیڈرز کی طرف سے اظہار خیال کے بعد عام ارکان نے بھی اس معاملہ پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

(جاری ہے)

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ اس واقعہ کے حوالے سے بہت سارے تضادات موجود ہیں، پولیس اور لوگوں کے بیانات میں بھی تضادات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر رائو انوار کو سزا دی جاتی تو اس طرح کے معاملات پیش نہ آتے۔ انہوں نے کہا کہ آئین پر چلنے سے ہمارے معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ ریاست کا کام لوگوں کو تحفظ دینا ہے، اس واقعہ کو مثال بنانا چاہئے اور جے آئی ٹی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ چیئرمین سینیٹ اس پر رولنگ جاری کریں۔ سینیٹر کہدہ بابر نے کہا کہ ساہیوال واقعہ افسوسناک ہے اور پارلیمانی لیڈران کو مل بیٹھ کر اس حوالے سے حکمت عملی طے کرنی چاہئے۔

تقریریں نہیں بلکہ عملی تجاویز سامنے آنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لئے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور رویئے اس ایوان سے تبدیل ہونے چاہئیں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ یہ معاملہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے نہیں اٹھایا گیا، یہ شہریوں کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں لیکن اس واقعہ نے ریاست سے پردہ اٹھایا ہے۔

انہوں نے وزیراعلیٰ اور آئی جی پنجاب کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ کل سی ٹی ڈی نے جو موقف اپنایا ہے ہمیں بتایا جائے کہ واقعی پاکستان میں داعش موجود ہے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے، ہم جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس معاملہ کو جس طریقے سے ہینڈل کیا ہے، اس پر سوالات اٹھتے ہیں، اب معاملہ کو دبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس واقعہ کو اگر منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا تو لوگوں کا حکومت اور ریاست پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ پولیس اور دیگر اداروں کے پاس لوگوں کو مارنے کا لائسنس نہیں ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں اگر قانون سازی کی ضرورت ہو وہ کرنی چاہئے۔ اس واقعہ میں ملوث تمام لوگوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے توڑ مروڑ کر بیانات جاری ہوں گے تو لوگوں کو یقین نہیں آتا۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ہم اس معاملہ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنا چاہتے لیکن واقعہ کے بعد جو ویڈیو فوٹیجز آئی ہیں ان میں لوگوں کو پولیس پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اے پی ایس واقعہ کے بعد پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ پشاور آئی اور لوگوں سے فاتحہ خوانی کی۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ ساہیوال واقعہ میں مقتولین کے بچوں کے ساتھ جو طرز عمل اپنایا گیا وہ افسوسناک تھا۔ ان بچوں کی ساری زندگی متاثر ہو گئی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ساہیوال میں جو ظلم ہوا اس کا الله کے ہاں حساب دینا پڑے گا، بچوں کے سامنے باپ پولیس والوں کی منتیں کرتا رہا کہ پیسے لے لو، گولی نہ مارو لیکن انہیں رحم نہ آیا۔

صوابی میں بھی چند روز قبل ایک گھر میں ایسا ہی واقعہ ہوا۔ سی ٹی ڈی دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔ انسانوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ سی ٹی ڈی کے تمام مقابلے مشکوک ہیں، سب کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ جے آئی ٹی میں پولیس کے ہی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، انصاف کیسے ہوگا۔ بے نامی ایف آئی آر درج کی گئی۔ ویزراعظم افسوس نہیں کارروائی کریں۔ رائو انوار کو اگر نشان عبرت بنا دیا جاتا تو آج یہ واقعہ نہ ہوتا۔

سانحہ ساہیوال پر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ اس ایوان میں پیش کی جائے۔ ماورائے عدالت قتل بند کرائے جائیں۔ ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ رائو انوار کو سیاسی پشت پناہی حاصل رہی۔ ہاف فرائی اور فل فرائی کی اصطلاحیں عام ہیں۔ ہمیں ماڈل ٹائون کے سانحہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ پنجاب پولیس کو سمجھ لینا چاہئے کہ اب کور اپ نہیں ہوگا، نہ کسی کی معافی ہوگی` اب وقت بدل چکا ہے۔

سانحہ ساہیوال کو دہشت گردی سے جوڑنے پر افسوس ہوا۔ چند پولیس اہلکاروں کی وجہ سے صفت غیور جیسے افسروں کی روح کو تکلیف پہنچی ہے۔ ساہیوال کے واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے اور پولیس میں اصلاحات کی جائیں۔ آج حکومت کی پولیٹیکل ول ہے کہ وہ نظام کی خرابیوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ سانحہ ساہیوال کی شدید مذمت کرتا ہوں، ظلم کی رات ختم ہونے والی ہے جو اس واقعہ میں ملوث ہے، وہ کیفر کردار کو پہنچے گا۔

سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ افسوس ہے کہ حکومت اس واقعہ پر بحث میں پس و پیش سے کام لے رہی تھی۔ جس طریقے سے بچوں کے سامنے ان کے والدین کو مارا گیا یہ انتہائی شرمناک ہے۔ یہ واقعہ ہمارے اداروں کی نااہلی کو واضح کر رہا ہے۔ سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ کیا ہم صرف باتیں کرتے رہیں گے یا کوئی عملی قدم بھی اٹھائیں گے۔ ہم سیاستدان بھی اس طرح کے واقعات کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم محض تقریریں کرتے ہیں۔

پوری قوم اس واقعہ کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہے۔ جے آئی ٹی بنانا فیشن بن گیا ہے۔ قانون میں کہیں جے آئی ٹی کا ذکر نہیں ہے۔ ہم ہر معاملے میں جے آئی ٹی کو لے آتے ہیں، واقعہ کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی انٹیلی جنس رپورٹ موجود تھی تو سامنے لایا جائے۔ پولیس کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ اپنا موقف کمیٹی کو تفصیل سے پیش کرے۔

پولیس سے وائرلیس کا ڈیٹا بھی مانگا ہے۔ سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کو 13 ویڈیو کلپس موصول ہوئے ہیں، ان کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ حکومت نیشنل ایکشن پلان کو لے کر آئے اور بتائے کہ اس کے کون سے حصوں پر عمل نہیں ہوا۔ یہ ایوان بیٹھ کر قانون میں اگر کہیں سقم ہے تو اسے دور کرے۔ ملک میں قانون کی حخمرانی کا فقدان ہے۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ بڑا واضح ہے، پولیس اہلکاروں خو ایف آئی آر میں نامزد نہ کرنا بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔

سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ جب بھی ملک میں کوئی ایسا واقعہ آئے جس پر پورا ملک اشک بار ہو تو ہمیں اس پر بحث کرنا چاہئے اور معاملات کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ ایک ظلم کی داستان ہے اور ہم سب اس کے خلاف یکسو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانون موجود ہے لیکن دیکھنا چاہئے کہ اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔

اس واقعہ کے رخ کو موڑنے کی کوشش کی گئی۔ بیانیہ بار بار تبدیل کیوں کیا گیا، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ آخر وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سی ٹی ڈی لاہور میں ایف آئی آر درج کرائی اور مقتولین کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ ساری قوم اس ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑی ہے۔ رائو انوار کو کن لوگوں نے بچایا، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔ اس واقعہ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہئے، اداروں میں اختیارات سے تجاوز کرنے والوں کو عبرتناک سزا دینی چاہئے۔