Live Updates

سینٹ میں اپوزیشن نے ساہیوال واقعہ کے حوالے سے حکومتی موقف مسترد کر دیا ، حقائق عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ

واقعہ کے حوالے سے مشکوک حالات سے پردہ اٹھانا چاہیے ،جے آئی ٹی اور دو دو ایف آئی آرز کے ذریعے معاملہ کو دبانے کی کوشش نہ کی جائے ،اصلاحات کا عمل خوش آئند ہے اس سے پہلے معاملہ کو دیکھنا ضروری ہے ، شیریں رحمن ،راجہ ظفر الحق ، سراج الحق ،عثمان کاکڑ ، سینیٹر جہانزیب جمالدینی و دیگر کا اظہار خیال وزیر اعظم واقعہ سے بخوبی آگاہ ہیں ،یقین دلاتے ہیں واقعہ کے ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دی جائے گی، سینیٹر فیصل جاوید کی یقین دہانی واقعہ پر سیاست نہیں کرنی چاہئے، جو ہوا غلط ہوا، معاملات کو درست سمت میں آگے لے جانے کی ضرورت ہے، سینٹ میں اظہار خیال اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہے ،چیئرمین سینیٹ نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کو سونپ دیں

پیر 21 جنوری 2019 20:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جنوری2019ء) سینٹ میں اپوزیشن نے ساہیوال واقعہ کے حوالے سے حکومتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ واقعہ کے حوالے سے مشکوک حالات سے پردہ اٹھانا چاہیے ،جے آئی ٹی اور دو دو ایف آئی آرز کے ذریعے معاملہ کو دبانے کی کوشش نہ کی جائے ،اصلاحات کا عمل خوش آئند ہے اس سے پہلے معاملہ کو دیکھنا ضروری ہے جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید نے کہاہے کہ وزیر اعظم واقعہ سے بخوبی آگاہ ہیں ،یقین دلاتے ہیں واقعہ کے ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دی جائے گی، واقعہ پر سیاست نہیں کرنی چاہئے، جو ہوا غلط ہوا، معاملات کو درست سمت میں آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔

پیر کو سینٹ اجلاس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکومت اور اپوزیشن کا موقف سننے کے بعد سانحہ ساہیوال پر ارکان کو اظہار خیال کی اجازت دی۔

(جاری ہے)

اجلاس کے دوران سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ وہ ساہیوال میں پیش آنے والے سانحہ پر تحریک التواء پیش کرنا چاہتے ہیں، اسے فوری طور پر زیر بحث لایا جائے۔ قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اس واقعہ پر جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد بات کی جائے پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس میں اس حوالے سے فیصلہ ہو چکا ہے۔

قائد حزب اختلاف سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ سارا ایوان اس واقعہ پر اظہار خیال کرنا چاہتا ہے، آج ہی اس معاملہ پر بات کی جائے کیونکہ یہ معاملہ فوری بحث کا متقاضی ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے اصرار کیا کہ ہائوس بزنس ایڈوائزری میں ہونے والے فیصلے کی پاسداری کی جائے اور اگر ہائوس بزنس ایڈوائزری میں ہونے والے فیصلوں کو نہیں ماننا تو پھر اس کا اجلاس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پورا ایوان ایک رائے دے رہا ہے، اس کا احترام کرنا چاہئے۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ہائوس بزنس ایڈوائزری میں طے ہوا تھا کہ آج ہی اس معاملے پر بحث ہوگی۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ تحریک التواء کی بجائے عوامی اہمیت کے حامل معاملہ کے طور پر اس پر تمام ارکان اظہار خیال کر سکتے ہیں۔عوامی اہمیت کے معاملہ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ پوری قوم کو نظر آ رہا ہے کہ حقائق کیا ہیں کیونکہ کیمرے کی آنکھ نے سب کچھ دکھا دیا ہے۔

انہوںنے کہاکہ ساہیوال میں لوگوں پر دن دیہاڑے ظلم ڈھایا گیا،پولیس کی جانب سے کہا گیا کہ کار کے شیشے کالے تھے حالانکہ ویڈیوز سے صاف ظاہر ہے کہ شیشے کالے نہیں تھے۔ انہوںنے کہاکہ اگر اس واقعہ پر ایکشن نہیں لیا گیا تو ساری قوم ہم سے پوچھے گی کہ ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دن دیہاڑے قتل پر جے آئی ٹی نہیں بنتی۔ پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ مرنے والے دہشت گرد ہیں لیکن ان کے ساتھ پورا خاندان تھا۔

اگر یہ واقعہ منصوبہ کے مطابق تھا تو گولیوں کی بوچھاڑ کی کیا ضرورت تھی، انہیں زندہ گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ شیری رحمان نے کہا کہ جے آئی ٹی اور دو دو ایف آئی آرز کے ذریعے معاملہ کو دبانے کی کوشش نہ کی جائے اور مشکوک حالات سے پردہ اٹھانا چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ وزیراعظم نے اس بارے میں ایک ٹویٹ بھی کیا ہے، ہم ان کے ٹویٹ سے اتفاق کرتے ہیں لیکن وہ اپنا موقف بار بار تبدیل نہیں کر سکتے۔

انہوںنے کہاکہ اصلاحات کا عمل خوش آئند ہے لیکن اس سے پہلے اس معاملہ کو دیکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس پبلک سرونٹ ہے، وہ ریاست کے ملازم ہیں اور ریاست لوگوں کو قتل نہیں کرتی بلکہ انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے ساہیوال واقعہ کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کی تفصیلات قوم کے سامنے آنی چاہئیں، ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ساہیوال میں ایک سنگین واقعہ پیش آیا، اس معاملہ پر ایوان میں بحث خوش آئند ہے کیونکہ یہ ایک انسان نہیں بلکہ کئی انسانی جانوں کا مسئلہ ہے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ پولیس کا اس واقعہ کے حوالے سے موقف درست نہیں ہے۔ فائرنگ کرنے والے پولیس کی وردی میں نہیں تھے اور مقتولین نے سمجھا کہ شاید وہ ڈاکو ہیں، اس لئے انہوں نے کہا کہ پیسے لے لیں لیکن ہمیں گولیاں نہ ماریں۔

واقعہ کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب ہر معاملہ میں جے آئی ٹی کا رواج پڑ گیا ہے، ہم اس معاملہ پر جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ جے آئی ٹی سے قبل ہی پنجاب حکومت اور انتظامیہ کا موقف پریس کانفرنسز کے ذریعے آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے جو بھی ذمہ دار ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔

واقعہ کی دو ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں حالانکہ سپریم کورٹ کی رولنگ ہے کہ ایک واقعہ پر دو ایف آئی آرز نہیں بن سکتیں۔ مقتولین کے لواحقین کی ایف آئی آر میں بھی نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس واقعہ میں جو لوگ ملوث ہیں انہیں نہیں بچنا چاہئے۔اجلاس میں عوامی اہمیت کے معاملہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اپنے ملک اور نظام کو ٹھیک کرنے کا جائزہ لینا چاہئے۔

انہوںنے کہاکہ ہم ڈنکے کی چوٹ پر ظالم کو ظالم کہیں گے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ ساہیوال واقعہ پر وزیراعظم پوری رات سو نہیں سو سکے، عوام میں اس واقعہ پر غم و غصہ جائز ہے، وزیراعظم اس سے آگاہ ہیں اور انہوں نے یقین دلایا ہے کہ ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ پنجاب کو گزشتہ 30 برسوں میں اس حالت میں کس طرح پہنچایا گیا ہے اور اب پولیس اور اداروں کے ڈھانچے میں بہتری کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔

خیبر پختونخوا میں انہوں نے اپنے 20 ممبران اسمبلی کے خلاف کارروائی کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اعلان کیا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ منگل کی شام پانچ بجے تک آ جائے گی۔ فیصل جاوید نے کہا کہ بہتر اسلوب حکمرانی کے لئے اپوزیشن ضروری ہے، اپوزیشن ہر اچھے کام کی تعریف اور کوتاہیوں پر تنقید کرتی ہے تاہم جو واقعہ پیش آیا ہے اس پر سیاست کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حکومت پاکستان اس واقعہ کے بارے میں ایک مثال قائم کرے گی کیونکہ عمران خان کو الله کا خوف ہے اور انہوں نے الله کو جواب دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل جو ہوا غلط ہوا ہے، ہم معاملات کو درست رکھنا چاہتے ہیں۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ساہیوال واقعہ سیاسی نہیں انسانی مسئلہ ہے، ساہیوال میں مرنے والے بھی رات کے اندھیرے میں مارے جاتے تو سچ کبھی سامنے نہ آتا۔

انہوں نے کہا کہ جو کچھ ساہیوال میں ہوا ایسا جنگل میں بھی نہیں ہوتا، ریاست کی مثال ماں کی طرح ہوتی ہے لیکن یہ کیسی ریاست ہے جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ پنجاب حکومت اپنا موقف بار بار تبدیل کر رہی ہے، ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں کڑی سزا دی جائے۔ بتایا جائے کہ کون سے ادارے تھے جنہوں نے غلط اطلاع دی۔ اگر مرنے والے دہشت گرد بھی تھے تب بھی اس طرح مارنے کا اختیار کس قانون میں ہے۔

جے یو آئی (ف) کے سیکریٹری جنرل اور سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ساہیوال میں پیش آنے والے واقعہ کے حوالے سے بار بار غلط بیانی کی گئی۔ بتایا جائے کس ادارے کی اطلاع کی بنیاد پر یہ کارروائی کی گئی۔ اس طرح کے واقعات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ پورا ملک اس واقعہ پر سراپا احتجاج ہے۔ چیئرمین سینیٹ سخت رولنگ دیں تاکہ واقعہ کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ پورے ملک میں ماورائے عدالت قتل ہو رہے ہیں، کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ رائو انوار کو سزا نہیں دی گئی اس لئے یہ واقعہ پیش آیا۔ ماورائے عدالت قتل پورے ملک میں ہو رہے ہیں، کسی کو سزا نہیں ہو رہی، جے آئی ٹی بنانے کا کلچر ختم ہونا چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ جس نے اس واقعے کے خلاف دلائل دئیے ہیں انکی مذمت کرتے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ پولیس والے جو ظلم کرتے ہیں یہ اس کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ملک میں انٹیلی جنس ادارے بے لگام ہیں۔ انہوںنے کہاکہ کہاگیا کہ انٹیلی جنس اطلاعات پر کاروائی ہوئی.ان اہلکاروں کو عبرت ناک بنایاجائے۔ عثمان خان کاکڑ نے راجہ بشارت کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔انہوںنے کہاکہ ایک مہینے کے اندر مجرموں کو سزا ملنی چاہیے ۔

انہوںنے کہاکہ سی ٹی ڈی کے افسروں کے خلاف بھی ایکشن لینا چاہئے ۔ انہوںنے کہاکہ سینٹ سے ایسی رولنگ آئے کہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے جرات نا ہوبلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ رائو انوار آزاد گھوم رہا ہے، اس کو وی آئی پی حیثیت دی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں جگہ جگہ لاشیں گر رہی ہیں، کسی کو پرواہ نہیں، کہیں بھی کوئی قتل ہو وہ پاکستانی کا قتل ہے۔

ہم توقع رکھتے ہیں کہ اس معاملہ پر حکومت کچھ نہ کچھ کرے گی۔ واقعہ کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنایا جائے جس میں اس ایوان کے ارکان کو بھی آبزرور کے طور پر شامل کیا جائے۔ جتنی بھی جے آئی ٹیز آج تک بنی ہیں ان میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی پارلیمانی لیڈر سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ سی ٹی ڈی پنجاب نے صوابی میں آ کر بھی ایک نوجوان کو اس کے گھر میں مارا۔

انہوں نے کہا کہ آج تک کس جے آئی ٹی کی رپورٹ آئی ہے، کیا نقیب الله قتل کیس کی رپورٹ آئی ہے، ہم بے حس ہو گئے ہیں، پولیس عوام کے لئے خوف کی علامت بن گئی ہے۔ سینیٹر عتیق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم سب گواہ ہیں کہ کراچی میں ہر صبح ایک لاش ملتی تھی۔ انہوںنے کہاکہ نقیب اللہ اور راؤ انوار کا کیس بھی ہمیں یاد ہے۔انہوںنے کہاکہ راؤ انوار کو کس نے بچایا ہمیں نہیں بتایا۔

انہوںنے کہاکہ اگر اس وقت سوچ لیا ہوتا تو حالات مختلف ہوتے۔ سینیٹر عتیق نے کہاکہ چیئرمین صاحب اس واقع پہ آپ کو رولنگ دیں۔انہوںنے کہاکہ مجرمان کو پورے لاہور کے سامنے پھانسی دی جائے،ملک کو چلانے کے لیے اداروں کی ضرورت ہے لیکن ایک مچھلی پورے تلاب کو گندا کر دیتی ہے،ہمیں ہر صورت مجرمان کو سزا دینی ہو گی۔اجلاس کے دوران سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ اس واقعہ کے حوالے سے بہت سارے تضادات موجود ہیں، پولیس اور لوگوں کے بیانات میں بھی تضادات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر رائو انوار کو سزا دی جاتی تو اس طرح کے معاملات پیش نہ آتے۔ انہوں نے کہا کہ آئین پر چلنے سے ہمارے معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ ریاست کا کام لوگوں کو تحفظ دینا ہے، اس واقعہ کو مثال بنانا چاہئے اور جے آئی ٹی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ چیئرمین سینیٹ اس پر رولنگ جاری کریں۔ سینیٹر کہدہ بابر نے کہا کہ ساہیوال واقعہ افسوسناک ہے اور پارلیمانی لیڈران کو مل بیٹھ کر اس حوالے سے حکمت عملی طے کرنی چاہئے۔

تقریریں نہیں بلکہ عملی تجاویز سامنے آنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لئے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور رویئے اس ایوان سے تبدیل ہونے چاہئیں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ یہ معاملہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے نہیں اٹھایا گیا، یہ شہریوں کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں لیکن اس واقعہ نے ریاست سے پردہ اٹھایا ہے۔

انہوں نے وزیراعلیٰ اور آئی جی پنجاب کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ کل سی ٹی ڈی نے جو موقف اپنایا ہے ہمیں بتایا جائے کہ واقعی پاکستان میں داعش موجود ہے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے، ہم جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس معاملہ کو جس طریقے سے ہینڈل کیا ہے، اس پر سوالات اٹھتے ہیں، اب معاملہ کو دبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس واقعہ کو اگر منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا تو لوگوں کا حکومت اور ریاست پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ پولیس اور دیگر اداروں کے پاس لوگوں کو مارنے کا لائسنس نہیں ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں اگر قانون سازی کی ضرورت ہو وہ کرنی چاہئے۔ اس واقعہ میں ملوث تمام لوگوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے توڑ مروڑ کر بیانات جاری ہوں گے تو لوگوں کو یقین نہیں آتا۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ہم اس معاملہ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنا چاہتے لیکن واقعہ کے بعد جو ویڈیو فوٹیجز آئی ہیں ان میں لوگوں کو پولیس پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اے پی ایس واقعہ کے بعد پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ پشاور آئی اور لوگوں سے فاتحہ خوانی کی۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ ساہیوال واقعہ میں مقتولین کے بچوں کے ساتھ جو طرز عمل اپنایا گیا وہ افسوسناک تھا۔ ان بچوں کی ساری زندگی متاثر ہو گئی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ساہیوال میں جو ظلم ہوا اس کا الله کے ہاں حساب دینا پڑے گا، بچوں کے سامنے باپ پولیس والوں کی منتیں کرتا رہا کہ پیسے لے لو، گولی نہ مارو لیکن انہیں رحم نہ آیا۔

صوابی میں بھی چند روز قبل ایک گھر میں ایسا ہی واقعہ ہوا۔ سی ٹی ڈی دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔ انسانوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ سی ٹی ڈی کے تمام مقابلے مشکوک ہیں، سب کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ جے آئی ٹی میں پولیس کے ہی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، انصاف کیسے ہوگا۔ بے نامی ایف آئی آر درج کی گئی۔ ویزراعظم افسوس نہیں کارروائی کریں۔ رائو انوار کو اگر نشان عبرت بنا دیا جاتا تو آج یہ واقعہ نہ ہوتا۔

سانحہ ساہیوال پر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ اس ایوان میں پیش کی جائے۔ ماورائے عدالت قتل بند کرائے جائیں۔ ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ رائو انوار کو سیاسی پشت پناہی حاصل رہی۔ ہاف فرائی اور فل فرائی کی اصطلاحیں عام ہیں۔ ہمیں ماڈل ٹائون کے سانحہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ پنجاب پولیس کو سمجھ لینا چاہئے کہ اب کور اپ نہیں ہوگا، نہ کسی کی معافی ہوگی` اب وقت بدل چکا ہے۔

سانحہ ساہیوال کو دہشت گردی سے جوڑنے پر افسوس ہوا۔ چند پولیس اہلکاروں کی وجہ سے صفت غیور جیسے افسروں کی روح کو تکلیف پہنچی ہے۔ ساہیوال کے واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے اور پولیس میں اصلاحات کی جائیں۔ آج حکومت کی پولیٹیکل ول ہے کہ وہ نظام کی خرابیوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ سانحہ ساہیوال کی شدید مذمت کرتا ہوں، ظلم کی رات ختم ہونے والی ہے جو اس واقعہ میں ملوث ہے، وہ کیفر کردار کو پہنچے گا۔

سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ افسوس ہے کہ حکومت اس واقعہ پر بحث میں پس و پیش سے کام لے رہی تھی۔ جس طریقے سے بچوں کے سامنے ان کے والدین کو مارا گیا یہ انتہائی شرمناک ہے۔ یہ واقعہ ہمارے اداروں کی نااہلی کو واضح کر رہا ہے۔ سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ کیا ہم صرف باتیں کرتے رہیں گے یا کوئی عملی قدم بھی اٹھائیں گے۔ ہم سیاستدان بھی اس طرح کے واقعات کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم محض تقریریں کرتے ہیں۔

پوری قوم اس واقعہ کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہے۔ جے آئی ٹی بنانا فیشن بن گیا ہے۔ قانون میں کہیں جے آئی ٹی کا ذکر نہیں ہے۔ ہم ہر معاملے میں جے آئی ٹی کو لے آتے ہیں، واقعہ کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی انٹیلی جنس رپورٹ موجود تھی تو سامنے لایا جائے۔ پولیس کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ اپنا موقف کمیٹی کو تفصیل سے پیش کرے۔

پولیس سے وائرلیس کا ڈیٹا بھی مانگا ہے۔ سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کو 13 ویڈیو کلپس موصول ہوئے ہیں، ان کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ حکومت نیشنل ایکشن پلان کو لے کر آئے اور بتائے کہ اس کے کون سے حصوں پر عمل نہیں ہوا۔ یہ ایوان بیٹھ کر قانون میں اگر کہیں سقم ہے تو اسے دور کرے۔ ملک میں قانون کی حخمرانی کا فقدان ہے۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ بڑا واضح ہے، پولیس اہلکاروں خو ایف آئی آر میں نامزد نہ کرنا بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔

سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ جب بھی ملک میں کوئی ایسا واقعہ آئے جس پر پورا ملک اشک بار ہو تو ہمیں اس پر بحث کرنا چاہئے اور معاملات کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ ایک ظلم کی داستان ہے اور ہم سب اس کے خلاف یکسو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانون موجود ہے لیکن دیکھنا چاہئے کہ اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔

اس واقعہ کے رخ کو موڑنے کی کوشش کی گئی۔ بیانیہ بار بار تبدیل کیوں کیا گیا، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ آخر وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سی ٹی ڈی لاہور میں ایف آئی آر درج کرائی اور مقتولین کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ ساری قوم اس ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑی ہے۔ رائو انوار کو کن لوگوں نے بچایا، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔ اس واقعہ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہئے، اداروں میں اختیارات سے تجاوز کرنے والوں کو عبرتناک سزا دینی چاہئے۔

اجلاس کے دور ان چیئرمین سینیٹ نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کو سونپ دیں ۔ صادق سنجرانی نے کہاکہ ساہیوال سانچے پر ہم اب غمزدہ ہیں، صادق سنجرانی نے کہاکہ اسلام میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہاکہ اگرچہ اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ایک صوبائی معاملہ ہے، چیئرمین سینیٹ نے کہاکہ سینیٹ کی داخلہ کمیٹی ایک ہفتے کے اندر تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرے، صادق سنجرانی نے کہاکہ کمیٹی ذمہ داروں کا تعین اور ایسے واقعات کی روک تھام کا پلان بنائے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہاکہ قائمہ کمیٹی متاثرہ بچوں کی کفالت کا پلان بھی تیار کرے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات