آئین میں درج ہے جب ایگزیکٹو پرفارم نہ کرے تو عدلیہ ایڈمنسٹریٹو ایکشن لے سکتی ہے ‘میاں ثاقب نثار

ہم نے اور ہمارے بڑوں نے کوتاہی برتی ، آج کی اور آنے والی نسلیں کوتاہی نہ برتیں ،اپنے حقوق کیلئے جاگتے رہنا اور اس پر پہرہ دینا ہے میں کسی کوو وضاحت پیش کرنے نہیں آیا جسے جوڈیشل ایکٹوازم کہا جاتا ہے وہ سپریم کورٹ نے اپنی ڈیوٹی سر انجام دی ‘ سابق چیف جسٹس

منگل 22 جنوری 2019 19:00

آئین میں درج ہے جب ایگزیکٹو پرفارم نہ کرے تو عدلیہ ایڈمنسٹریٹو ایکشن ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 جنوری2019ء) سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آئین میں درج ہے کہ جب ایگزیکٹو پرفارم نہ کر ے تو عدلیہ ایڈ منسٹریٹو ایکشن لے سکتی ہے ، ہم نے اور ہمارے بڑوں نے کوتاہی برتی لیکن آج کی اور آنے والی نسلیں کوتاہی نہ برتیں ،آپ کو اپنے حقوق کیلئے جاگتے رہنا اور اس پر پہرہ دینا ہے اور آپ کے حقوق ملک کی بقاء ہیں ،میں کسی کوو وضاحت پیش کرنے نہیں آیا جسے جوڈیشل ایکٹوازم کہا جاتا ہے وہ سپریم کورٹ نے اپنی ڈیوٹی سر انجام دی ۔

ان خیالات کا اظہارا نہوں نے مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان میں صحت کے شعبے کا حال بہت برا ہے ، کوئٹہ کے ایک بڑے ہسپتال گیا اور اس دورے میں وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی ہمرا ہ تھے لیکن اس ہسپتال میںسٹاف مکمل نہیں ٹھا، آلات مکمل نہیں تھے ،آپریشن تھیٹر کا وہ معیار نہیں تھا جو ہونا چاہیے ۔

(جاری ہے)

ایک ہزار پیرا میڈیکس ہڑتال پر تھے ان سے پوچھا کہ ہڑتال کیوں کی تو انہوں نے کہا کہ مطالبات بتائے لیکن انہیںکہا ہڑتال ختم کریں اور انہوں نے ہڑتال ختم کر دی ۔ میں ینگ ڈاکٹرز کا احسان نہیں دے سکتا ، پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز نے ہر موڑ پر میری مدد اور رہنمائی کی ۔ میری ایک ہی سوچ تھی کس طرح بنیادی انسان حقوق کی فراہمی ہونی ہے ، یہ دنیا صرف زندگی کی وجہ سے یونیک ہے وگرنہ یہ بھی اور سیاروں کی طرح ہوتی ۔

صحت سب سے اہم اور اعلیٰ ہے ۔ یہ ویلفیئر اسٹیٹ ہے اور اس کے تقاضے ہیں لیکن آج بیمار کسمپرسی میں زندگی گزار رہے ہیں اور لوگ علاج نہیں کر اسکتے ۔ ہمارے ہاں ایک ملازم تھا جو بیمار ہو گیا میں نے پوچھا دوائی کھاتے ہو تو اس نے کہا کہ بیٹی کی شادی کرنی تھی اس لئے دوائی نہیں کھاتا ۔ ایک پنشن پر گزارہ کرنے والے فوت ہو گئے اور ان کی بیوہ کو 225روپی79پیسے پنشن ملتی تھی کیا اس میں گزارہ ہو سکتا ہے کیا ا س سے دوائی کھا ئی جا سکتی ہے، ریاست مدد نہیں کرتی یا وسائل نہیں ہے میں کسی کو مجرم ٹھہرانے نہیں آیا لیکن ان حالات سے آگاہ کرتا ہوں کہ وہ کیا وجوہات تھی جس وقت جوڈیشل ایکٹوزم ہوا، میں کسی کوجواب دینے کیلئے حاضر نہیںہوا لیکن میں نے جو بھی کام کیا نیک نیتی سے کیا ، اس کا محاصل رائٹ ٹو لائف ہے ، آئین میں انسانی حقوق سے زیادہ کچھ نہیں ۔

میں دوستوں سے کہتا تھا کہ ہم نے پے بیک کرنا ہے ۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو میں تو میں شاید کسی ہندو بنیے کا منشی ہوتا اور جج نہ ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک سے محبت کریں اوریہ جنون کی کیفیت ہے ۔ جب آپ جنون پیدا کر لیتے ہیں تو حالات تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان بنانے کے لئے قائد اعظم کا جنون تھا آپ جب لا علاج مرض میںمبتلا ہوئے تو آپ نے کہا کہ یہ مرض ظاہر نہ ہو اور انگریز نے کہا تھاکہ اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ قائد اعظم کی طبیعت ناساز ہے تو ہم پاکستان کے بننے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ۔

انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے پاکستان بنایا لیکن آپ اور میں اس کی رکھوالی نہیں کر سکے ۔ فرض میں کوتاہی نہ کریں جو ہم نے اور ہمارے بڑوں نے کی،آج کی اور آنے والی نسلوں کوتاہی نہ کرنا جاگتے رہنا اور پہرہ دیتے رہا ، آپ کے حقوق ملک کی بقاء ہے ، ہر شخص کو عام شہری کے طور پر ترقی کرنے کا حق حاصل ہے ، اگر آپ کو حق نہیں ملتا تو ضرور آواز اٹھائیے ۔

انہوں نے کہا کہ جہاں پہلے ٹھاٹھیں مارتے دریا تھے آج وہاں پانی بوند نہیں ہے ، کوئٹہ میںپانی 2000فٹ نیچے چلا گیا ہے اور سات سال بعد کوئٹہ میں پانی نہیں ہوگا ،ہم نے اس کے لئے پلان کیا ہے ، سپریم کورٹ نے اپنی ڈیوٹی پرفارم کی ہے۔آئین کی دو شقوں میں لکھا ہے جب کوئی آدمی ( ایگزیکٹو ،تمام ادارے ) پرفارم نہ کرے تو عدلیہ ایڈ منسٹریشن ایکشن لے سکتی ہے ۔

میں نے کسی کی جگہ سرجن کا کام نہیں کیا ، انتھیسزیا کا کام نہیں کیا ، کسی کو نسخہ لکھ کر نہیں دیا صرف یہ کہا کہ یہ چیزیں ہونی چاہیے او ریہ حکومت کی ڈیوٹی ہے اور کیوں پوری نہیں کرتے ۔ مٹھی کے ہسپتال میں ایکسر ے کی دو مشینیں تھیں ایک 1976سے خراب تھی اور دوسری استعداد سے بھی کم چل رہی تھی لیکن وہاں پر تین سال سے ریڈیالوجسٹ نہیں۔ آپریشن تھیٹر میں چائے بن رہی تھی ۔

۔ ہم نے صاف پانی مہیا کرنے کی بات کر کے اپنی حدود سے تجاوز کیا ۔ ایک محتاط انداز کے مطابق منرل واٹر کمپنیاں سات ارب گیلن استعمال کر رہی تھیں لیکن اس کے عوض ایک پیسہ نہیں دیا جارہا تھا ۔ چھ مہینے پہلے ہم نے معاملے کو اٹھایا تو پیسے کا 1.4فیصدفی لیٹر کی قیمت لگا ئی گئی لیکن اربوں روپے کا بزنس کر رہی ہیں ۔ اس سے پہلے پائی نہیں دی جاتی تھی لیکن ہم نے ایک طے کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ پیسہ واٹر مینجمنٹ کے لئے استعمال ہوگا ، مجھے کسی کے کاروبار کی پرواہ نہیں ، میں کہوں گاکہ گھر میں پانی ابال کر اور گھڑے میں ڈال کر پئیں ۔

پانی نایاب ہے یہ بہت قیمتی ہے اسے احتیاط سے استعمال کریں ۔ ہم پانی کے لئے فیکٹریاں نہیں لگا سکتے ، پانچ ہزار مربع اراضی دیدی جائے تو نہر نہیں نکال سکیں گے۔