Live Updates

وفاقی حکومت نے اپوزیشن کے شور شرابے میں رواں مالی سال کا دوسرا منی بجٹ پیش کردیا

وفاقی وزیرخزانہ گھروں کی تعمیر کیلئے 5 ارب روپے کی قرض حسنہ اسکیم کا اعلان زرعی قرضوں پر ٹیکس 39 سے کم کر کے 20 فیصد ،نا ن فائلر کیلئے ود ہولڈنگ ٹیکس ختم ،ایس ایم ای سیکٹر کے بینک قرضوں پر آمدن کا ٹیکس20 فیصد ،چھوٹے شادی ہالز پر ٹیکس 20 ہزار سے کم کرکے 5 ہزار کردیا گیا نیوز پرنٹ پر امپورٹ ڈیوٹی ختم،چھوٹے گھروں پر بینک قرض آمدنی کا ٹیکس 39 سے کم کرکے 20 فیصد کردیا گیا، نئی صنعتوں کو پانچ سال کیلئے ٹیکس چھوٹ ہوگی ، سولر پینل اور ونڈ ٹربائن پاکستان میں بنائے جائیں گے ، سپیشل اکنامک زونز میں درآمدی مشینری کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس پانچ سا ل کیلئے ختم ، زرعی قرضوں ، صنعتی قرضوں اور گھروں کیلئے قرضہ جات پر ٹیکس آدھا کردیا گیا سیونگ ٹیکس ختم ، در آمدی موبائل اور سیٹلائٹ پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ نان فائلرز زیادہ ٹیکس دے کر 1300 سی سی گاڑیاں خرید سکیں گے،1800 سی سی سے زائد گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی پر اضافہ کیا گیا ہے، 30 ڈالر سے کم قیمت کے موبائل پر سیلز ٹیکس 150 روپے ہوگا جب کہ 30 سے 100 ڈالر قیمت کے درآمدی موبائل پر 1470 روپے سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا، 350 سے 500 ڈالر قیمت کے درآمدی موبائل پر سیلز ٹیکس 6000 روپے سیلز ٹیکس ہوگا ،اسد عمر

بدھ 23 جنوری 2019 23:12

وفاقی حکومت نے  اپوزیشن کے شور شرابے میں رواں مالی سال کا دوسرا منی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 جنوری2019ء) وفاقی وزیر خزانہ نے اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود رواں مالی سال کا دوسرا منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا جبکہ اسد عمر نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا ہے کہ گھروں کی تعمیر کے لیے 5 ارب روپے کی قرض حسنہ اسکیم کا اور زرعی قرضوں پر ٹیکس 39 سے کم کر کے 20 فیصد پر لا یا گیا ہے ،نا ن فائلر کیلئے ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کردیا گیاہے،ایس ایم ای سیکٹر کے بینک قرضوں پر آمدن کا ٹیکس20 فیصد کررہے ہیں،چھوٹے شادی ہالز پر ٹیکس 20 ہزار سے کم کرکے 5 ہزار کردیا گیا ہے ،نیوز پرنٹ پر امپورٹ ڈیوٹی ختم اورچھوٹے گھروں پر بینک قرض آمدنی کا ٹیکس 39 سے کم کرکے 20 فیصد کردیا گیا، نئی صنعتوں کو پانچ سال کیلئے ٹیکس چھوٹ ہوگی ، سولر پینل اور ونڈ ٹربائن پاکستان میں بنائے جائیں گے ، سپیشل اکنامک زونز میں درآمدی مشینری کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس پانچ سا ل کیلئے ختم کیا جارہا ہے ، زرعی قرضوں ، صنعتی قرضوں اور گھروں کیلئے قرضہ جات پر ٹیکس آدھا کردیا گیا ہے، سیونگ ٹیکس ختم کردیا گیا ، در آمدی موبائل اور سیٹلائٹ پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوا کیا گیا ہے،نان فائلرز زیادہ ٹیکس دے کر 1300 سی سی گاڑیاں خرید سکیں گے،1800 سی سی سے زائد گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی پر اضافہ کیا گیا ہے، 30 ڈالر سے کم قیمت کے موبائل پر سیلز ٹیکس 150 روپے ہوگا جب کہ 30 سے 100 ڈالر قیمت کے درآمدی موبائل پر 1470 روپے سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا، 350 سے 500 ڈالر قیمت کے درآمدی موبائل پر سیلز ٹیکس 6000 روپے سیلز ٹیکس ہوگا۔

(جاری ہے)

بدھ کو سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن کے شور شرابے میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے رواں مالی سال کا دوسرا منی بجٹ پیش کیا۔وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا میرے لئے یہ انتہائی اعزاز کی بات ہے کہ آج میں اس معزز ایوان کے سامنے برآمدات بڑھانے ، ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور صنعت کی بحالی کا ایک جامع لائحہ عمل جو ملک کو درپیش چیلنجز سے نبٹنے کا راستہ متعین کرتا ہے بلکہ ایک مضبوط ، متوازن اور تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کی بنیاد بھی فراہم کرے گا۔

پاکستان کواس وقت معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ جس کے لئے فوری اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ چیلنجز معیشت میں کمزوریوں کا نتیجہ ہیں۔ جس کے نتیجے میں ملکی معیشت اندرونی اور بیرونی دھچکوں کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار رہی ہے۔ ماضی کی حکومت کو آنے والے معاشی بحران کی بارہا تنبیہہ کی گئی لیکن بجائے اس کے کہ بڑھتے ہوئے اندرونی خساروں کو Reverse کیا جاتا، اُن کو مزید تقویت دی گئی۔

یہ سب کچھ لاعلمی کے ماحول میں نہیں ہوا بلکہ سمجھتے بوجھتے ہوئے آنے والے الیکشن پہ اثر انداز ہونے کے لیے ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت کومزید نقصان پہنچایا گیا۔ اس غفلت کے نتیجے میںاندرونی اور بیرونی خساروں میں آخری دو سالوں میں مزید ناقابل برداشت اضافہ ہوا۔ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو میکرواکنامک اعشاریو ں میں عدم توازن خطرناک حد تک بگڑ چکا تھا۔

جب پی ٹی آئی کی حکومت نے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت ملک کی معاشی صورتحال کو فوری اصلاحی اقدامات کی ضرورت تھی۔ مالیاتی خسارہ جو 2015-16؁ء میں شرع نمو کا 4.6% تھا دوسالوں میں 6.6% تک پہنچ گیا۔ علاوہ ازیں سرکاری ملکیت میں موجود انٹرپرائزز کے مالی نقصانات شرع نمو کے 1.4%کی ریکارڈ سطح پر تھے۔ توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے 1.2کھرب روپے کی حد کو عبور کرچکے تھے۔

درآمدات میں تیزی سے اضافے کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 19بلین امریکی ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا تھا جبکہ برآمدات فی الحقیقت جمود کا شکار تھیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارہ میں اس بے مثال اضافے کے باعث ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی پیداچکی تھی۔یہ ذخائر محض 6ہفتے کی درآمدات کی ادائیگی کے لیے کافی تھے۔ ملک کی بڑھتی ہوئی بیرونی قرضہ جات کی مد میں ادائیگی بھی واجب تھی۔

درآمد شدہ کیپیٹل فنانس اور مصنوعی طور پر اوور ویلیو ڈ ایکسچینج ریٹ کے نظام والے اس معاشی ڈھانچے کی پہلی اور آخری ترجیح صرف کھپت تھی۔ اسد عمر نے کہا حکومت کے لئے موجود آپشنز کے حوالے سے یہ واضح رہے کہ حکومتی مداخلت کے بغیر معاشی عدم توازن کا یہ عمل جاری رہنا تھا اور جس کے نتیجے میں معاشی اہداف خود ہی اپنے آپ کو منفی طور پر ایڈجسٹ کر لیتے۔

اس صورتحال میں زرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر ملک کو Debt Servicingاور دیگر ادائیگیوں کے ضمن میں ڈیفالٹ کرنے پر مجبور کرسکتے تھے۔ جس کے باعث بین الاقوامی مارکیٹوں میں کریڈٹ کا انتظام ایک انتہائی مشکل اًمر بن جاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ناکافی ذخائر کے باعث تمام اقسام کی درآمدات پر بڑی حدتک دباؤ پیدا ہوتا۔ جن میںپٹرول ، گیس اور خام مال شامل ہیں اور اس سے برآمدات اور شرح نمو پر منفی اثر پڑتا اور نتیجتاً روزگارکے مواقع کم ہو جاتے ۔

درآمدات پر دباؤ کے باعث توانائی اور اشیاء کی مارکیٹوں میں قلت پیدا ہوجاتی جو افراط زر میںانتہائی اضافے کا باعث بنتی۔برآمدات میں کمی ہوجاتی اور معاشی شرح نمو اور روزگار کے مواقع کم ہوجاتے ۔ برآمدات میں کمی کا مزید اثر پٹرول اور اشیاء کی عدم فراہمی ہوتی اور افراطِ زر میں بے پناہ اضافے کی صورت میں سامنے آتا۔ ایکچینج ریٹ اور منی مارکیٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے اور روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی ہوجاتی اور شرحِ سود بہت اوپر چلی جاتی۔

اس قسم کی adjustment عام شہریوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتی اور بالخصوص غریب لوگوں کی مشکلات میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا۔ فی الفوراصلاحاتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھی۔ تاہم ایڈجسٹمنٹ کی رفتارکے بارے میں ایک فیصلہ ضروری تھا۔ایک آپشن تو یہ تھا کہ تیزی سے درستگی کے اقدامات فوری طور پر اٹھالیے جاتے اور پی ٹی آئی کی حکومت کے ابتدائی دور میں ہی معاشی عدم توازن ختم کر لیا جاتا تاکہ معیشت بلند شرح نمو پر مبنی بحالی کی طرف چلی جاتی اور مناسب حد تک روزگار میں اضافہ ہوتا۔

دوسرا آپشن یہ تھا کہ ایک مزید بتدریج ایڈجسٹمنٹ کا راستہ اپنایا جائے اور جب ضرورت ہو تو قیمتوںکی تیز ایڈجسٹمنٹ کے راستے کو اپنایا جائے اور استحکام کے ساتھ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی پیروی کی جائے۔ تاکہ معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جا سکے ۔دووجوہات کی بناء پر ڈھانچہ جاتی اصلاحات میںبتدریج ایڈجسٹمنٹ کے لئے حکومت نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا۔

اولاً حکومت چاہتی ہے کہ معاشرہ کے طبقات کو تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ پہلے دوسالوں میں مکمل ایڈجسٹمنٹ کی بھاری قیمت کے بڑے پیمانے پر بُرے اثرات غریب طبقے پر پڑتے۔ اور پبلک سیفٹی کے اقدامات اس نقصان میں مکمل کمی نہ لاتے۔ دوئم موجودہ معاشی عدم استحکام ماضی قریب میں صرف کمزور فیصلوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ گہری ڈھانچہ جاتی اصلاحات مسائل کے باعث بھی پیدا ہوا ہے جس سے معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

یہ ڈھانچہ جاتی مسائل وہ وجوہات ہیں جن کے باعث ماضی کے Stabilization Program کے ثمرات غیرمستحکم رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے ضروری ایڈجسٹمنٹ کے اقدامات اختیار کئے جو وقت کی ضرورت تھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ڈھانچہ جاتی مسائل کے راستے پر چلنے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اس سے نہ صرف معاشی بحالی کے لئے ٹھوس بنیاد فراہم ہو گی بلکہ ہر چند سال بعد نمودار ہونے والی معاشی عدم استحکام سے بھی بچا جاسکے گا۔

اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات سے حاصل ہونے والے کارکردگی کے ثمرات کے باعث مضبوط اور تیز رفتار استحکام کے اقدامات کو تقویت ملے گی۔ اور یوں ان اقدامات سے پیدا ہونے والی بعض مشکلات میں کمی پیدا ہوگی بالخصوص آبادی کے متوسط طبقات کے لئے۔ انہوں نے کہا اقتدار سنبھالنے کے بعد PTIحکومت کا اوّلین مقصد ادائیگیوں کے توازن میں استحکام پیدا کرناتھا۔

حکومت نے انتھک کام کیا اور قابل ذکر کامیابی کے ساتھ اور دوست ممالک سے قلیل مدتی اور وسط مدتی قرضہ جات حاصل کیے تاکہ بیرونی فنانسنگ کا بندوبست کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ درآمدی تیل کی ادائیگی میں سہولت حاصل کی اور اس طرح سنٹرل بینک کے Deposits میں اضافہ کیا۔ PTI کی حکومت کی ان کاوشوں سے مندرجہ ذیل امور میں مدد ملی:۔ ادائیگیوں کی صورتحال میں بہتری ہوئی۔

سخت adjustmentسے گریز کیا ۔ میکرواکنامک استحکام اورstructural reformsکی ایک متوازن حکمت عملی کی پیروی کرنے کے لئے مالیاتی گنجائش فراہم ہوئی۔ تاہم ہمارے دوست ممالک ایک حد تک ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں۔ علاوہ ازیں اکتوبر میں ضمنی بجٹ منظور کیا گیا جس میں ٹیکس میں اضافے اور اخراجات میں کمی کے اضافی اقدامات اٹھائے گئے تاکہ مالیاتی خسارے کو 2017-18؁ء میں شرح نمو کے 6.6% سے کم کیا جائے جب یہ بجٹ پیش کیا گیا اس وقت 2018-19؁ء میں اس کا تخمینہ 7 فیصد سے اوپر تھا۔

2017-18میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ جو کہ GDPکے 6.1% تک جا پہنچا تھا اس کو بھی کم کرنے کے اقدامات تجویز کیے گئے۔ مزید برآں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں درستگی لائی گئی تاکہ انرجی یوٹیلیٹی کی مالیاتی صحت میں بہتری لائی جاسکے۔ اور بجٹ پر ان کا بوجھ کم کیا جاسکے اور توانائی کے شعبے کے بڑے پیمانے پر گردشی قرضوں کے لئے جزوی طور پر مالیاتی سہولت فراہم کی جاسکیں۔

Quasi مالی خسارے میں رواں سال 2018-19 میں کمی ہوئی ۔ حکومت نے بھاگ دوڑ سنبھالتے ہی استحکام لانے کے پیکج کا نفاذ کیا۔ جس میں سٹیٹ بنک کی جانب سے 10%شرح مبادلہ کی ایڈجسٹمنٹ اور مالیاتی پالیسی میں 250بی پی ایس کی ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔ یہ تمام اقدامات ایک منتخب حکومت کے لئے بہت مشکل فیصلے تھے ۔اس حکومت کی یہ خواہش ہے کہ عام شہریوں کو ریلیف فراہم کیا جائے ۔

لیکن ہمارا یقین ہے کہ یہ اقدامات معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری تھے۔ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے ثمرات ملنا شروع ہوگئے ہیں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں مالی سال 2019؁ء کے پہلی6 ماہ میں ترسیلات زر میں 10% Improvement دیکھی گئی ہے۔ تجارتی خسارے میں 5%کمی واقع ہوئی۔ اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے میں 4.4% کی کمی آئی ۔ یہ امر بھی حوصلہ افزا ہے کہ نجی شعبے میں شامل بزنس نے پچھلے 6 ماہ کے مقابلے میں 2 گنا زیادہ کریڈٹ کا حصول کیا اور زرعی شعبے میں 22 فیصد کا اضافہ ہوا۔

استحکام کے ان اقدامات کے باعث افراط ِزر میں کمی اور شہریوں کی زندگی گزارنے کی لاگت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہیڈلائن افراطِ زر میں مالیاتی اقدامات کے باعث کمی کا آغاز ہوچکا ہے۔ جو اکتوبر میں 6.8%سے کم ہو کر دسمبر2018؁ء میں 6.2%ہوگئی ہے۔اس کے اثرات فوڈ انفلیشن پر زیادہ نمایاں ہیں۔ اسد عمر نے بجٹ تقریر میں کہا مسلسل میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لئے ہم اضافی اقدامات اٹھاتے رہیں گے۔

مالی سال 2019؁ء کے اختتام تک ہماری تمام کوششیں اس امر کو یقینی بنائیں گی کہ تجارتی توازن میں مزید بہتری لائی جائے گی، ترسیلات ِزرمیں صحت افزاء رجحان کے باعث گزشتہ سال کے مقابلے میں کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے مین تیزی سے کمی آئے گی۔ اضافیFDI inflows اور مناسب بیرونی فنانسنگ کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر آج کے مقابلے میں بہتر ہو جائیں گے۔ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ذریعے پیدوار میں تیزی کے ذریعے تیز رفتار نمو۔

ہماری معیشت میں ھانچہ جاتی اصلاحات کے ضمن میں تین بنیادی مسائل ہیں۔ محاصل اور اخراجات کے درمیان فرق محصولات کے ضمن میں کمزور کوششیں محصولات اور اخراجات کے درمیان فرق ملک میں ہماری معاشی مسائل کی بنیاد ہے۔ہما را جی ڈی پی تناسب سے ٹیکس دنیا میں کم ترین ہے۔ جس کی ایک وجہ ٹیکس بیس محدود ہونا ہے۔ بے شمار استثنیٰ اور ٹیکس نافذ کرنے والے اداروں کی استطاعت اور وسائل میں کمی کی وجہ سے ٹیکسوں کی وصولی کی رفتار ملکی معیشت کی ضروریات کے لئے ناکافی رہی ہے ۔

ٹیکس نظام میں عدم شفافیت اور عدم انصاف کی وجہ سے بھی لوگ پورا ٹیکس ادا کرنے پر آمادہ نہیں ۔وفاقی اورصوبائی سطحوں پر محاصل اکٹھا کرنے کے نظام میں بنیادی عدم ترغیب کا عنصر پایا جاتا ہے۔ معاشرے کے طاقت ور اور ٹیکس نادہندہ افرا د پر مناسب ٹیکس عائد کرنے کے ضمن میں سابقہ حکومتوں کے سیاسی تدبر میں کمی متعلقہ اقدامات اٹھانے میں رکاوٹ کا باعث بنی رہی۔

PTIکی حکومت نے ٹیکس کے نظام کو خامیوں سے پاک کرنے کا عزم کیا ہوا ہے اور اس ضمن میں پہلے سے ہی بہت سے قوی اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں ٹیکس پالیسی اور ٹیکس ایڈمنسٹریشن کی علیحدگی ، غیر ملکی اثاثوں کے لئے مخصوص ٹیکس یونٹ کی تشکیل، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت پیدا کرنے کے اقدامات اور انڈر رپورٹنگ کی نشاندہی اور ڈیٹا مائیننگ کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وسیع پیمانے پر استعمال شامل ہیں۔

معلومات کے تبادلے کے معاہدے کے ذریعے حکومت نے حال ہی میں OECDسے ڈیٹا حاصل کیا ہے۔اس کے باعث اب لوگوں کے لیے یہ بہت مشکل ہوجائے گا کہ وہ پاکستان سے باہر اپنے اثاثے اور بنک اکاؤنٹ چھپاسکیں۔ علاوہ ازیں اکنامک ایڈوائزری کونسل ھانچہ جا تی مسائل پر کام کررہی ہے جن کی وجہ سے معیشت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کونسل کی سفارشات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے اور وزیراعظم نے ان سفارشات کی منظوری دیدی ہے اور ان سفارشات کے باعث ڈ ھانچہ جاتی اصلاحات کے ضمن میں مستقبل کا راستہ وضع کرنے کے حوالے سے حکومت کو مدد ملے گی۔

استحکام اور نمو کا لائحہ عمل (A Roadmap to Stability and Growth)نامی دستاویز میں اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات اور EACکی سفارشات پر مبنی دستاویز کا اجراء آئندہ آنے والے دنوں میں کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا بر آمدات اور درآمدات میں فرق۔ ہماری معیشت میں دوسری بنیادی کمزوری برآمدات اور درآمدات میں بڑے پیمانے پر موجود بڑھتا ہوا فرق ہے۔بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ترسیلات زر کی آمد کے باوجود یہ فرق میکرواکنامک عدم استحکام اور ادائیگیوں کی توازن میں ناپائیداری کا بنیادی سبب ہے۔

حالیہ سالوں میں ملک کی برآمدات میں کمی کے رجحان اور درآمدات میں اضافے کے باعث یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔ ملک کے 75%درآمدات فیول اور صنعتی خام مال پر مشتمل ہیں۔ معیشت میں نمو کے ساتھ درآمدات میں اضافہ ہوگا۔ اس کے برعکس برآمدات میں اضافہ معیشت کے نمو کے تناسب سے بھی نہیں ہوتا رہا۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری زیادہ تر برآمدات کم قدر کی حامل ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی برآمداتی اشیاء کو کثیرالجہت بنانے اور برآمدی مارکیٹوں میں تنوع پیدا کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ مزید اہم امر یہ ہے کہ ہماری برآمدات کے ضمن میں ہم نے کم معیاری ٹیکنالوجی کے بجائے اعلٰی معیار کی حامل ٹیکنالوجی کے استعمال میں ناکام ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میںہماری برآمدات بین الاقوامی مارکیٹوں میں اپنیCompetitiveness کھو رہی ہیں اور نتیجتاً ہر گزرتے ہوئے سال کے دوران اپنی روایتی مارکیٹوں میں روایتی برآمدات فروخت کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

یہ ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی سطح پر Overvalued رکھنے کا نتیجہ ہے۔ گورنمنٹ کی معاشی پالیسی کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ مقامی پیداوار میں اضافہ اور پیداواری لاگت میں کمی لائی جائے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے مقامی طور پر حاصل کردہ ایندھن پر مزید انحصار کیا جائے گا جس میں قابل تجدید توانائی کو فروغ دینابھی شامل ہے۔ مزید برآں لچکدار شرح مبادلہ ، برآمدات میں اضافہ اورگھریلو صنعتوں کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔

ان اقدامات سے برآمدات کو مزید تقویت ملے گی۔ بچت اور سرمایہ کاری میں فاصلہ:۔گزشتہ حکومتوں کی پالیسیاں بڑے قرضوں کی سرمایہ کاری کے ذریعے شرح نموبڑھانے پر مرتکزتھیں۔ لہذا شرح نمو کے لحاظ سے پاکستان میں سرمایہ کاری خطے میں کم ترین سطح پر ہے۔ جوکہ انڈیا کا نصف اور بنگلہ دیش کا ایک تہائی ہے۔ ملک میں انتہائی ناکافی سرمایہ کاری کا سب سے اہم سبب بچت کی کم شرح ہے جوکہ جی ڈی پی کا صرف 10.8%فیصد ہے۔

بچت کی اس کم مقدار کا یہ نتیجہ ہے کہ سرمایہ کاری کا واحد ذریعہ بیرونی قرضہ جات ہیں جوکہ بیرونی قرض کا بوجھ بڑھاتے ہیں اور ادائیگیوں کے توازن کو درہم برہم کردیتے ہیں۔ بچت کی کم سطح کے علاوہ پیچیدہ قوانین اور ٹیکسوں کے نظام کی وجہ سے غیر موافق سرمایہ کاری اور کاروباری ماحول اور پاکستان کا کمزور مالیاتی شعبہ بھی سرمایہ کاری کو پنپنے نہیں دیتے ۔

حکومت بھرپور طریقے سے برآمدات، سرمایہ کاری اور بچت کو بڑھانے کے لئے کوشاں ہے۔ جس پیکج کا آج پی ٹی آئی حکومت اعلان کرنے جارہی ہے وہ اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ، ہم نے تمام کلیدی امور پر اکنامک ایڈوائزری کونسل کی سفارشات پر عمل شروع کردیا ہے۔ اسد عمر نے کہا جناب سپیکر!، خوشحالی کا نیا دور ،ہمیں یقین ہے پی ٹی آ ئی حکومت نے معاشی استحکام کا جو راستہ اختیار کیا ہے اور جو ڈھانچہ جاتی اصلاحات متعارف کروائی ہیں وہ پاکستانی عوام کو اقتصادی خوشحالی کی طرف لے کر جائیں گی ۔

آنے والے سالوں میں ہماری توجہ سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور اندرونی بچت بڑھانے پر مرکوز رہے گی۔ اقتصادی ترقی پانے کے لیے ڈومیسٹک وسائل کے ذریعے ڈومیسٹک سپلائی میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے ہم بے روزگار نوجوانوں کے لیے ذریعہ معاش (روزگار) فراہم کریں گے تاکہ نوجوان طبقے کو نہ صرف علم یا مہارت دئیے جا سکیں جو روزگار کے لیے ضروری ہے بلکہ انہیں اس قابل بھی بنایا جا سکے کہ وہ بڑھتے ہوئے گھریلو اخراجات کے اثر سے محفوظ رہ سکیں اور سب سے اہم بات یہ کہ معیشت کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔

بنیادی طور پرکرنٹ اکائونٹ اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں جو اہم اصلاحات ہم نے متعارف کروائی ہیں یہ اقدامات غریب اور متوسط درجے کو مہنگائی کے اثر سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔ انشاء اللہ۔ علاوہ ازیں ہم پسماندہ طبقات کو خوراک اور توانائی کے مد میں سبسڈی اور سماجی سیفٹی نیٹ میں توسیع جاری رکھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ملکی معیشت پر داخلی اور خارجی اثرات سے بھی آگاہ ہیں۔

ان میں سے کچھ عوامل پر حکومت کاا ختیار محدود ہو سکتا ہے۔ ہم روزانہ ، ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر ملکی معیشت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جب اور جہاں بھی ضرورت محسوس ہوئی اصلاحی اقدامات کیے جائیں گے۔ ہمارا وضع کردہ معاشی ڈھانچہ اس امر کو یقینی بنائے گا کہ ملک اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔کرنٹ اکائونٹ خسارہ کو تیزی سے کم کیا جائے، معاشی استحکام کی وجہ سے مالی خسارہ کم ہوگا۔

مزید براں، حکومت توانائی کے شعبے میں مالی خسارے کو ختم کرنے کیلئے اقدامات جاری رکھے گی اور اس کو صفر شرح پر لے آئے گی۔ بنیادی ڈھانچے میں اہم اصطلاحات کے ذریعے، ایف بی آر کے محصولات میں مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب کے مطابق خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا، اس کے ساتھ توقع کی جاتی ہے کہ صوبے بھی اس عمل کی پیروی کریں گے۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ مہنگائی کی شرح کنٹرول رہے۔

ہمارے اصطلاحاتی اقدامات ملکی بچتوں میں مثبت رجحان کی توثیق کریں گے، اس لیے اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ سرمایہ کاری کا مخصوص حصہ ملکی وسائل کے ذریعے فنانس کیا جائے ۔ اس کے علاوہ، یہ اس امر کو بھی یقینی بنائے گا کہ برآمدات اور ترسیلاب زر میں اضافہ ڈبل ڈیجٹ میں ہوگا۔ اطمینان بخش غیر ملکی سرمایہ کاری Bilateral، Multilatral ،پاکستان بناؤ سرٹفیکیٹ کا اجراء، اور پنڈا بانڈ کا اجراء، سکوک اور یورو بانڈ کا اجراء اور تجارتی سرمایہ کاری اس امر کو یقینی بنائے گی کہ مالیاتی ضروریات کو مجموعی طور پر پورا کر دیا گیا ہے۔

یہ تمام اقدامات زرمبادلہ کے ذخائر کو اطمینان بخش سطح تک بڑھانے میں مدد دیں گے۔ سوشل سیکٹر کی تحفظ کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے ساتھ سوشل سیکٹر کی ترق اس حکومت کا بنیادی ستون ہے۔ حکومت اس امر کو یقینی بنانے کے لیے بچوں میں ناکافی خوراک کی وجہ سے Stunting کو کم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین میں بھی اس پروگرام کے تحت غذائیت کو پورا کیا جائے گا۔

انتہائی غربت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حکومت غربت کم کرنے کے پروگرام کے لئے پہلے ہی خاطر خواہ رقم مختص کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اثاثوں کی منتقلی کے ذریعہ لوگوں کو غربت سے نکالنے کا پروگرام بھی شروع کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت غریب افراد کے لیے معیاری تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کا عزم رکھتی ہے ۔ اس ضمن میں وسیلہ تعلیم پروگرام پورے ملک میں پھیلایا جائے گا تاکہ غریب خاندان اس سے مستفید ہو سکیں۔

غرباء کیلئے معیاری طبی سہولیات کی فراہمی بھی موجودہ حکومت کی ترجیح ہے۔ حکومت پورے ملک میں مستحق لوگوں کے لیے انصاف ہیلتھ کارڈ فراہم کرے گی۔ قابل رسائی اورکم لاگت ہاؤسنگ کی سہولیات کی فراہمی بھی PTIکی حکومت کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے۔ اس ضمن میں 5 ارب روپے کا قرضہ مستحق خاندانوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ معیشت کی بحالی کیلئے ہمارا فریم ورک Sound Governance پر محیط ہے۔

اس ضمن میں صحیح لوگوں کی نشاندہی کرکے اُن کی صلاحیتوں کے مطابق اُن کو اہم اداروں میں تعیناتی کی جا رہی ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) فریم ورک کو مزید مستحکم کیاگیا ہے اور قومی حکمت عملی ور تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سی عملدر آمد کرایا جائے گا ۔یہ حکومت انڈسٹری کو اس Revival Package سے مکمل طور پرسپورٹ کرنا چاہتی ہے۔ اور اس ضمن میں GIDC کے بقایا جات کی Settlement اور اس کی شرح میں کمی کر کے Cost of Doing Business کو کم کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا زراعت میں ہماری حکومت نے زرعی قرضوں کے حصول کے لیے زرعی زمین جو مالیت کے تعین کے لیے استعمال میں Unit Produce Index کی قیمت 4000روپے فی یونٹ سے بڑھا کر 6000روپے کر رہی ہے اس کی وجہ سے کسانوں کو موجودہ قرضے کی نسبت 50فی صد مزید زرعی قرضہ میسر ہو سکے گا۔ اس ضمن میں بینکوں کو بھی اضافی سہولیات فراہم کی گئی ہے تاکہ وہ زرعی قرضوں کے اجراء میں کام کر سکے۔

یوریا کھاد کی قیمتوں میں کمی کے لیے بھی بہت سے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ حکومت اس بات کو بھی یقینی بنا رہی ہے کہ کسانوں کو ربیع کی فصل کے لیے کم قیمت یوریا کھاد دستیاب ہو اس سلسلے میں ایک لاکھ ٹن یوریا کھاد درآمد کی گئی ہے جس پر حکومت 1143روپے فی فوری کی سبسڈی برداشت کرے گی ۔ یوریا کھاد بنانے والی فیکٹریوں کو بھی 714 روپے فی بوری سبسڈی کم قیمت گیس کے ذریعے دی جا رہی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے حکومت نے سوئی نادرن گیس کے نیٹ ورک پر موجود دو کھاد کی بند فیکٹریوں کو 1137 روپے فی بوری کی سبسڈی دے کر فیکٹریوں کو فعال بنا دیا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے کسانوں کی لاگت میں کمی آئے گی اور زرعی شعبہ مزید منفعت بخش ہو جائے گا۔ ان تمام اقدامات کی وجہ سے یوریا کھاد کی قیمت 1805 روپے فی بوری رہنے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ حکومت GIDC کو یوریا اور Fertilizer 50 فیصد کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔

اُن صنعتوں کے لیے جو کہ واجبات ادا کرتی ہیں۔ اس کمی سے یوریا کی قیمت میں 200 روپے فی بیگ کی کمی ہو جائے گی۔ اور DAP، NP اور CAN کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔ پاکستان میں غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاری کم ہونے کی نمایاں وجوہات میں سے ایک اہم وجہ پاکستان میں کاروبار کرنے پر اٹھنے والے بھاری اخراجات ہیں۔اس مسٴلے کے کئی پہلو ہیں جن کے حل کے لیے کئی محاذوں پر عملی کام کرنے کی ضرورت ہے جن میںامن وعامہ کا استحکام،انفرا سٹرکچرکی مضبوطی ، قواعد و ضواط کو سادہ اور آسان بنانا ،سہولیات کی فراہمی میںبہتری ، تجارتی قوانین کا بہتر نفاذ اور تنازعات کا حل جیسے اقدامات شامل ہیں۔

ان تمام شعبوں میں کام جاری ہے اور ٹیکس قوانین کی تعمیل پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں کے بوجھ کو معقول سطح پر لانا اس کاوش کا مرکزی نقطہ ہے۔جناب سپیکر مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے مراعات کی فراہمی اور ٹیکس قوانین کی تعمیل پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی اس فنانس بل کے اہم ترین اجزاء ہیں۔

اسی لییanti-business distortions کو ختم کرنے اور pro-growth اورpro-investment فریم ورک مہیا کرنے کے لییصنعتوں کی بحالی کے اس انویسٹمنٹ پیکج کے تحت وفاقی محصولات جن میں انکم ٹیکس ، سیلز ٹیکس ، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹیاں شامل ہیں، کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔معیشت کے تمام شعبوں کی نمو کے لیے قرضہ جات کی آسان دستیابی بہت اہمیت رکھتی ہے۔حکومت کی کوشش ہے کہNational Financial Inclusion Strategy اور دیگر ایسے اقدامات کے ذریعے قرضہ جات کی دستیابی کو بڑھایا جائے۔

اس بل کے ذریعے ہم ایسی ٹیکس مراعات تجویز کر رہے ہیں جن سے بنکوں کی جانب سے ترجیحی شعبوں کو قرضہ جات کی فراہمی کو فروغ ملنے کے علاوہ اقتصادی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہو گا اور ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ترجیحی شعبہ جات میں مائیکرو ، سمال اور میڈیم سائز enterprises،کم خرچ گھروں کی تعمیر اور زراعت کے شعبے شامل ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ ان ترجیحی شعبوں کو اضافی قرضہ جات کی فراہمی معاشی ترقی کو بہتری اور استحکام کے راستے پر ڈال دے گی۔

غ*SMEسیکٹر ملک کیGDPمیں اہم حصہ ڈال رہا ہے۔ معیشت کی نمو میں کلیدی کردار کرنے کے باوجود SEM سیکٹر کو دیے گئے قرضہ جات کاحجم بہت کم ہے۔اس ایشو کے حل کے لیے تجویز ہے کہ بنکوں کی جانب سے ما ئکرو ، سمال اور میڈیم سائز enterprises کو فراہم کیے گئے اضافی قرضہ جات سے حاصل شدہ آمدنی پر عائد ٹیکس کی موجودہ 35% شرح کو کم کر کے 20%کر دیا جائے۔اضافی قرضہ جات کا حساب کیلنڈر ایئر2018ء میں SME سیکٹر کو دیے گئے اوسطاً قرضہ جات کو سامنے رکھ کر لگایا جائے گا۔

اس شق کا اطلاق ٹیکس سال 2020ء سی2023ء تک ہوگا۔ سستی رہائش کی فراہمی ایک اور ترجیحی شعبہ ہے۔پاکستان میںhousing units کی شدیدقلت رہی ہے اورمعاشرہ کے کم آمدنی والے طبقات اس کمی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ہاؤزنگ کے شعبے میں دیے گئے قرضہ جات کا موجودہ حجم GDPکا صرف25% ہے جو کہ اس خطے میں سب سے کم ہے ۔ کم لاگت گھروں کی تعمیر کے لیے قرضہ جات کی فراہمی کے فروغ کے لیے تجویز ہے کہ بنکوں کی جانب سے کم خرچ رہائشی مکانوں کی تعمیر کے لیے سال 2018ء میں متعین حد سے زائد قرضہ جات کی فراہمی پر حاصل شدہ آمدنی پر عائد ٹیکس کی موجودہ 35% شرح کو کم کر کے 20% کر دیا جائے۔

اس شق کا اطلاق ٹیکس سال 2020ء سی2023ء تک ہوگا۔ زرعی قرضہ جات کی خصوصاً چھوٹے کسانوں کو بروقت فراہمی زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے چنانچہ زرعی شعبے کو سستے قرضہ جات کی فراہمی وقت کی اہم ضرورت ہے۔زرعی قرضہ جات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے تجویز ہے کہبنکوں کی جانب سے زرعی قرضوں کے لیے سال 2018ء میں متعین حد سے زائد فراہم کردہ قرضہ جات سے حاصل شدہ آمدنی پرعائد ٹیکس کی موجودہ 35% شرح کو کم کر کے 20% کر دیا جائے۔

اس شق کا اطلاق ٹیکس سال 2020ء سی2023ء تک ہوگا۔ اگر ایک شخص اپنے تمام بنک اکاؤنٹس سے ایک دن میںپچاس ہزار روپے سے زائد کیش نکالتا ہے تو اس پر ایڈوانس ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ فی الوقت مقررہ حد سے زیادہ کیش نکالنے کی صورت میں Filers کو نکلوائی جانے والی رقم کا 0.3% اورNon-filers کو 0.6% بطورٹیکس ادا کرنا پڑتاہے۔ یہ ٹیکس ایسے ٹیکس دہندگان کیلئے غیرضروری بوجھ کا سبب ہے جو اپنے ٹیکس گوشوارے باقائدگی سے جمع کرا کر ٹیکس قوانین کی تعمیل کررہے ہیں۔

علاوہ ازیںاس ٹیکس سے معیشت کے دستاویزشدہ شعبوں میں بنکوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے رحجان پر بھی منفی اثر پڑا ہے اس لیے تجویز ہے کہ ٹیکس قوانین کی پاسداری کرنے والے ٹیکس دہندگان کی سہولت اورdocumented sectorsکی حوصلہ افزائی کے لیے Filers کے لییcash withdrawalsپر ٹیکس ختم کر دیا جائے۔ تاہم Non-filers پریہ ٹیکس بدستور لاگو رہے گا ۔Non-filers اپنا ٹیکس گوشوارہ جمع کرا کر اس ٹیکس سے نہ صرف بچ سکتے ہیں بلکہ اپنے کٹوائے گئے ٹیکس کو گوشوارے میںadjust بھی کراسکتے ہیں۔

ہمnon-filers کی filers بننے اور ٹیکس قوانین کی تعمیل کے لیے ہمہ وقت حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔بیرون ملک مقیم پاکستانی قومی ترقی میں کئی طریقوں سے اہم کردار ادا کرتے ہیں جن میں غیر ملکی ترسیلات زر سب سے نمایاں ہیں۔ بنکنگ چینل سے غیر ملکی ترسیلاتِ زر بھجوانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے چنانچہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سہولت اور بنکنگ چینلز کے ذریعے غیر ملکی ترسیلات زربھجوانے کی حوصلہ افزائی کے لیے تجویز ہے کہ ملکی کرنسی میں کھلے ان تمام بنک اکاؤنٹس جنہیں غیر ملکی ترسیلات زر کے ذریعے چلایا جاتا ہے، سے کیش نکلوانے پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا جائے۔

فائلرز کے لیے کیش کے عوض بنکنگ انسٹرومنٹ خریدنے پر عائد ایڈوانس ٹیکس کا خاتمہ فائلرز قانون کی تعمیل کرنے والے ٹیکس دہندگان ہیں۔کیش کے عوض بنکوں سے بنک ڈرافٹ، پے آرڈروغیرہ خریدنے یا آن لائن ٹرانسفر وغیرہ پر ایڈوانس انکم ٹیکس لیا جاتا ہے۔ ٹیکس دہندگان کے لیے نقصان کا مو جب بننے والے اس ٹیکس کو فائلرز کے لیے ختم کرنے کی تجویز ہے۔

کمرشل درآمدکندگان پر عائد ٹیکسوں میں تبدیلی کے لیے فنانس ایکٹ2018ء میں ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت امپورٹ کے وقت منہا کیا جانے والا ٹیکس جسے اس سے قبل فائنل ٹیکس تسلیم کیا جاتا تھا، کو کم سے کم ٹیکس کا درجہ دے دیاگیا ۔اس ترمیم سے ان کمر شل درآمدکندگان کے لیے مسائل پیدا ہوئے جو پہلے سے بلند شرحوں پر ٹیکس ادا کر رہے تھے۔کمر شل درآمدکندگان ہماری کاروباری سرگرمیوں کا اہم حصہ ہیں۔

یہ مینو فیکچرز اور تاجروں کی جانب سے فنانسنگ کاسٹ کا بو جھ بھی اٹھاتے ہیں۔ان کی مشکلات کم کرنے کے لیے تجویز ہے کہ کمر شل درآمدکندگان کو کم سے کم ٹیکس رجیم سے نکال لیا گیا ہے جائے۔اس سلسلے میں پرانی صورت کو بحال کیا جا رہا ہے اور درآمدات پر منہا کیا جانے والا ٹیکس دوبارہ تسلیم جائے گا۔ہماری حکومت ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔

اس وقت نان فائلرزپر غیر منقولہ جائیداد اور گاڑی خریدنے پر پابندی عائد ہے۔تاہم نان فائلرز پانچ لاکھ روپے مالیت تک کی غیر منقولہ جائیداد خرید سکتے ہیں تاہم انہیں گاڑی خریدنے کے لیے ایسی سہولت دستیاب نہیں ہے۔نان فائلرز کے لیے بھی ایک جائزحد تک گاڑی خریدنے کی اجازت ضروری ہے۔چنانچہ تجویز ہے کہنان فائلرز کو1300CC کی حد تک مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیاںبُک،رجسٹر اور خریدنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

اس سے غیر منقولہ جائیداد اور گاڑیاں خریدنے کے مابین تضاد کا خاتمہ ہو جائے گا۔علاوہ ازیںاس قدم سے مقامی گاڑیوں کی پیدا وار میں اضافہ ہو گا اور آٹو موبائل صنعت اور ان سے منسلک ,وینڈرز کے کاروبارپر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ٹیکس قوانین کی تعمیل کی حوصلہ افزائی کے لیے نان فائلرز پر گاڑیوں کی رجسٹریشن کی مد میںعائد ود ہولڈنگ کی موجودہ شرحوں میں 50% اضافے کی تجویز ہے۔

پاکستان کے نجی کارباری ادارے اور سرکاری محکمے کئی ٹرازنیکشن پر ٹیکس اکٹھا کر کے قابل قدر عوامی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔فی الوقت انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 165کے تحت ود ہولڈنگ ایجنٹس کے لیے ٹیکس وصولی کی ولد ہولڈنگ سٹی منٹ ہر ماہ جمع کرانا لازم ہے۔اس پابندی کی وجہ سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہذا اس بوجھ کو ہلکا کرنے اور کاروبار میں آسا نیاں فراہم کرنے کیلئے ماہانہ بنیادوں پر ولد ہولڈنگ ٹیکس جمع کرانے کی پابندی ختم کر کے اسے ششماہی بنیادوں پر جمع کرانے کو لازم قرار دینے کی تجویزہے۔

اس اقدام سے کارباری اداروں کی غیر ضروری مشکلات اور اضافی ٹرانزیکشن سے نجات ملے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری حکومت کم اور درمیانی آمدنی والے طبقات اور چھوٹے کاروبار کو ریلیف پہنچانے کا تہیہ کیے ہوئے ہے ۔فی الوقت ایک شخص پر شادی ہال،میرج شامیانے یا کمرشل لان میں شادی کا فنکشن منعقد کرنے پر20,000 روپے معّین ٹیکس عائد ہے۔تجویز ہے کہ 500مربع گز سے کم جگہ پر شادی کا فنکشن منعقد کرانے کی صورت میں ایڈوانس ٹیکسکی کم از کم شرح کو20,000 روپے سے کم کر کی5,000 روپے کر دیا جائے۔

اس اقدام سے کم اور درمیانی آمدنی والے خاندانوںپر بوجھ کم ہو گا۔ہمارے دور حکومت میں ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والے افراد کی تعداد میں34% اضافے کے باوجود ملک بھر میںٹیکس گوشوارے جمع کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد بہت کم ہے۔ ٹیکس بنیادوں کو وسعت دینا بدستور ایک اہم چیلنج ہے۔ چھوٹے کاروبار ہماری معیشت کا قابل قدر حصہ ہیں تاہم یہ طبقہ ٹیکس نظام کو بڑا پیچیدہ اور پریشان کن سمجھتاہے۔

ہمیں ٹیکس قوانین کی بہتر تعمیل کے لیے چھوٹے کاروباروںکو آسا نیاں فراہم کرنا ہوں گی۔فی الوقت چھوٹے دکانداروں کی ایک بڑی تعداد Undocumented economy کا حصہ اور ٹیکس نظام سے باہر ہے۔ معیشت کی ڈاکومٹیشن کا مقصد ُاس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک کہ چھوٹے کاروبار کرنے والے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کریں گے۔اس بل کے ذریعے قانون میں ایک ایسی شق متعارف کروانے کی تجویز ہے جس کے ذریعے وفاقی حکومت کوچھوٹے دکانداروں کیلئے آسان ٹیکس سکیموں کے اجراء کی اجازت مل سکے گی۔

ایسی سکیمیںابتداء میں اسلام آباد کیپیٹل ٹریٹری میں متعارف کرائی جائیں گی۔ اسلام آباد میں ان سکیموں کے نتائج کی مانیٹرنگ اور ایولیشن کے بعد انہیں ملک کے باقی حصوں میں نافذ کیا جائے گا۔عالمی دنیا اور ہماری قومی زندگی میں ہونے والی ترقی و تبدیلی سے معاشرے کو باخبر رکھنے کے لیے میڈیا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔فی الوقت آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے تصدیق شدہ جریدوں اور اخبارات کے مالکان کو 5%کی رعایتی شرح سے رولز یا شیٹس کی صورت میں نیوز پرنٹ درآمد کرنے کی اجازت ہے ۔

اخبارات کی ان پٹ لاگت کم کرنے، قومی پرنٹ میڈیا انڈسٹری کی مدد اور شہریوں کو سستے اخبارات کی فراہمی کے لیے تجویز ہے کہ اے پی این ایس کی موجودہ تصدیق کی شرط پورے کرنے پر موجودہ5% کسٹم ڈیوٹی پر استثنیٰ دے دیا جائے۔ سٹیٹ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مالی سال2018ء میں صنعتی شعبہ ترقی کا ہدف حاصل نہیں کر پایا۔مینو فیکچرنگ سیکٹر ہماری جی ڈی پی کا صرف13.50% ہے۔

جی ڈی پی میں اس سیکٹر کا حصہ پچھلی ایک دہائی میں عمومی طور پر سٹیٹکٹ رہا ہے۔ ہمارے مینو فیکچرنگ سیکٹر کا حجم اور کوالٹی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔لارج سکیل انڈسٹری بھی زیادہ تر سیمنٹ، چینی، کھادوں، ٹیکسٹائل، پٹرولیم اور خوراک کے شعبوں میں ہی انحصار ہے۔پاکستان کی صنعت مقابلے اور ٹیکنالوجی کے اشاریوں میں بھی نچلے درجے پر ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اب میںبرآمدات اور صنعتوں کے فروغ کے جڑواں مقاصد کی تکمیل کے لیے متعلقہ اقدامات کا اعلان کروں گا۔ہمارا موجودہ کسٹم ٹیرف بعض جگہوں میں ریونیو کوآگے رکھتا ہے۔بعض میٹریل اور ان پٹ جن کا 135 کے لگ بھگ ٹیرف لائن پر اثر پڑتا ہے اور جن کا تعلق پلاسٹک، ، چمڑے، گھریلو اشیاء، ڈائپر اور کیمیکل کی صنعتوں سے ہے ، کی نشاندہی کر لی گئی ہے تاکہ ان پر عائد کسٹم ڈیوٹی اور اضافی کسٹم ڈیوٹی میں کمی کے علاوہ ریگولیٹری ڈیوٹی کے لاگو نرخوں کا خاتمہ یا ان میں کمی کی جا سکے۔

ابتدائی طور پر پلانٹ اشیاء کی درآمد پر ریگو لیٹری ڈیوٹی کی کمی یا خاتمہ اور کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی تجاویز کو اس بل کی منظوری کے ساتھ ہی نافذ کر دیا جائے گا تاہم بقیہ آئٹمز پرکسٹم ڈیوٹی اور اضافی کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی تجاویز کو 31 مارچ2019ء سے نافذ کیا جائے گا۔ ان اقدامات سے مقامی مینو فیکچرنگ سیکٹر کی حوصلہ افزائی اور ملکی برآمدات کو بہتر بنانے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔

مقامی آٹو اسمبلرز، چیمبرز اور آٹو پارٹس تیار کرنے والے افراد نی ری پریزنٹیشن دی ہے کہ بعض ان پٹ پر ریلزپر ڈیوٹی ختم کر دی جائے کیونکہ ایسی اشیائ لوکل ونڈرز جن میں سے زیادہ تر ایس ایم ای ایس ہیں، کے تیار کردہ آٹو پارٹس میں استعمال ہوتی ہیں۔مقامی وینڈنگ سیکٹرکو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد فراہم کرنے اور آٹو پارٹس کی مقامی سطح پر تیاری کی حوصلہ افزائی کے لیے تجویز ہے کہ مقامی وینڈرز کی جانب سے آٹو پارٹس کی تیاری میں استعمال ہونے والے سامان جس کی تقریباً 200 tarrif lines ہیں، کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی جائے۔

اس وقت 5 ارب روپے سے زائد مالیت کی اشیاء ویئر ہائوس میں میں بغیر کلیئرنس کے پڑی ہوئی ہیں۔ سرمائے کی کمی کا شکار کاروباری براداری کو ریلیف پہنچانے کے لیے حکومت کا ارادہ ہے کہ مقررہ مدت سے زیادہ پڑے رہنے کی وجہ سے ان اشیاء پر لگنے والا 40 کروڑ روپے کا سر چارج ختم کر دیا جائے۔اس اقدام سے انڈسٹری کی تمام اشیاء کی درآمدات میں مزید آسانی ملے گی۔

ایس ای زیڈ میں سرمایہ کاری کا فروغ فی الوقت پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ چند مخصوص سیکٹر ز کو ہی دستیاب ہے۔ دیگر سیکٹرز کو پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر سیلزٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس سیلز ٹیکس کو مستقبل کے آؤٹ پٹ ٹیکس کیساتھ ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے تاہم یہ ایڈجسٹمنٹ ایک طویل عرصے بعد ہوتی ہے جب انڈسٹری اپنی مصنوعات فروخت کرنا شروع کرتی ہے۔

اس سے کاروبار کے شروع کے دنوں میں اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے جوکہ سرمایہ کاری میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ گرین فیلڈسرمایہ کاری اور صنعتی ترقی کو فروغ دینے کیلئے تجویز ہے کہ قابل ٹیکس اشیاء کی پیداوار کے لیے لگائی جانے والی نئی صنعتوں میں استعمال ہونے والے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر لگنے والے سیلز ٹیکس کی ادائیگی میں چھوٹ دے دی جائے۔

پاکستان کئی سالوں سے جاری توانائی کے بحران کی بھاری قیمت چکا رہا ہے جس سے نہ صرف عوام کو کئی مسائل کا سامنا ہے بلکہ اس بحران سے صنعتی شعبے کی معاشی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔اس مشکل صورت حال میں سولر اور ہوا توانائی کے قابل تجدید ذرائع کا فروغ ناگزیر ہو جاتا ہے۔فی الوقت ایسے صنعتی منصوبوں جن میںقابل تجدید توانائی کے حصول میںاستعمال ہونے والے پلانٹس، مشینری اور دیگراجزاء تیار کی جاتی ہیں، سے حاصل شدہ آمدنی پر ٹیکس ا ستثنیٰ دستیاب ہے۔

تجویز ہے کہ یہ ا ستثنیٰ ایسے اجزاء کی پیداوار کے لیے نئے قائم شدہ منصوبوں کو بھی پانچ سال کی مدت کے لیے دستیاب ہو۔ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر اور نشوونما میں کھیلوں کا کردار بہت اہم ہے ۔کھیل کے میدانوں میں حاصل کی گئی کامیابیاں ملک کے لیے وقار کا باعث بنتی ہیں۔ علاوہ ازیںکھیلوں کے مقابلوں سے معاشی اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

حکومت محسوس کرتی ہے کہ کھیلوں کی حوصلہ افزائی ہماری ایک اہم سماجی ذمہ داری ہے۔کھیلوں کی سرگرمیوں کے فروغ اور ان میں عالمی کھلاڑیوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے تجویز ہے کہ حکومت پاکستان کے قائم کردہ کسی بھی ادارے یا سپورٹس بورڈ کے زیر اہتمام منعقدہ کھیلوں کی کسی عالمی لیگ میں شریک ٹیموں سے فرنچائز رائٹس کی نیلامی کے مواقع پر عائد ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیا جائے۔

یہ شق یکم جولائی2019ء سے لاگو ہو گی۔ سپر ٹیکس فنانس ایکٹ 2015ء میںلاگو کیا گیا تھا۔اس کا اطلاق تمام نان بنکنگ ٹیکس دہندگان جن کی سا لانہ آمدن 50کروڑ یازیادہ تھی، اور تمام بنکنگ کمپنیوں پر تھا۔ کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے تجویز ہے کہ نان بنکنگ ٹیکس دہندگان پر سپر ٹیکس کا نفاذ ٹیکس سال 2019ء کے بعد سے ختم کر دیا جائے۔

فنانس ایکٹ2018ء سے قبل بنکنگ کمپنیوں پر سپر ٹیکس 4% کی شرح سے لاگو تھا۔تجویز ہے کہ بنکنگ کمپنیوں پر یہ ٹیکس اسی شرح سے جاری رکھا جائے۔فنانس بل2018ء کے ذریعے نان بنکنگ کارپوریٹ سیکٹر کے لیی -ڈی کلائنگ متعارف کرایا گیا تھا جس نی2023ء تک بتدریج کم ہو کر25% شرح کے ہدف تک آ جانا ہے۔کاروباری برادری کا اعتماد بڑھانے کے لیے یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ فنانس ایکٹ2018ء کے ذریعے متعارف کرائی گئی نان بنکنگ کارپوریٹ سیکٹر کے ٹیکس ریٹ میں کمی بتدریج جاری رہے گی۔

فنانس ایکٹ 2015ء میں متعارف کرایا گیا ایک اورقدم نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری اوربیلنسکے لیے درکار سرمایہ اکٹھا کرنے اور موجودہ منصوبوں میں گنجائش بڑھانے اور جدت لانے کی کوششوں میں رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔بنیادی طور پر یہ ایک ٹیکس تھا جو بنک اور مضاربہ کے علاوہ ایسی تمام پبلک کمپنیوں کیundistributed reserves پر لگایا گیا تھاجو ایک ٹیکس سال کے اندر منافع کماتی تھیں تاہم ٹیکس سال کے ختم ہونے کے چھ ماہ کے اندر cash dividends کھاتہ داروں میںتقسیم نہیں کرتی تھیں ۔

یہ قانون ایسی کمپنیوں کے لیے مشکلات کا باعث بنا جو نئی سرمایہ کاری کیلئے اپنے مالی ذخائر بڑھانا چاہتی تھیں ۔چونکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے منافع جات بیرون ملک رہائش پذیرشیئرہولڈرزمیں بھی تقسیم کرنے پڑتے ہیں اس لیے اس ٹیکس کی وجہ سے سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل ہو رہا تھا ۔چنانچہ تجویز ہے کہ undistributed profits پر عائد ٹیکس کو موجودہ ٹیکس سال کے بعد ختم کر دیا جائے تاکہ کمپنیاں نئے اور موجودہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے اپنے مالی ذخائر میں اضافہ کر سکیں۔

سرمائے کی کمی کا شکار اور بیمار کمپنیوں کی بحالی نواور ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس2001ء میں گروپ ریلیف کا آپشن موجود ہے جس کے تحت ایک ہولڈنگ کمپنی بعض شرائط کے تحت اپنے نقصانات کو ذیلی کمپنیوں میں منتقل کر سکتی ہے۔تجویز ہے کہ ٹیکس سال2019ء کے بعد ایسی تمام کمپنیوں جو اپنے نقصانات کو ٹیکس سال کے اندر آگے منتقل کر رہی ہیں،کے مابین dividends کی ادائیگی کوان کے حصص کے تناسب سے انکم ٹیکس سے مستثنیٰ کر دیا جائے تاکہ ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ اور ان کی بحالی نو ممکن ہو سکے ۔

سٹاک ایکسچینج اقتصادی سرگرمیوں کا محور ہے اور اس کا استحکام دنیا بھر کیلئے ایک مضبوط پاکستانی معیشت کا عکاس ہے۔ ہم اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے کئی اقدامات تجویز کر رہے ہیں۔ پاکستان میں رجسٹرڈ سٹاک ایکسچینج کے اراکین کو شیئرزکی خرید وفروخت پر حاصل شدہ کمیشن کی رقم پر ایڈوانس ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جو کہ فروخت شدہ یا خریدے گئے شیئرز ویلیو کا 0.02% ہوتا ہے۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج اور کاروباری برادری کے مطالبے پرسرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری اعتماد کو بڑھاوا دینے کیلئے اس ٹیکس کو ختم کیا جارہا ہے۔ اس ٹیکس کے خاتمے سے سٹاک ایکسچینج میں transactionکی لاگت بھی کم ہوگی۔سٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی تجارت سے حاصل شدہ آمدن پر سال 2010ء سے ٹیکس کی شرح بڑھائی جاتی رہی ہے۔ اسی طرح ٹیکس کی مدت کو بھی کئی بار بڑھایا گیا ہے۔

علاوہ ازیں موجودہ قانون کے تحت سٹاک ایکسچینج میں ہونے والے نقصان کو اگلے سال بھی نہیں ساتھ لے کر نہیں چلا جاتا۔ ٹیکس کی شرحوں اور مدت نفاذ میں اضافوں کے مد نظر اور سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے تجویز ہے کہ ٹیکس سال2019ء کے بعد سے شیئرز اور سیکورٹیز کی تجارت پر مالیاتی خسارہ کو تین سالوں تک carry forwardکرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ہونے والے نقصان کو شیئرز اور سیکورٹیز سے حاصل شدہcapital gains میںadjust کیا جا سکے ۔

ہماری حکومت کے آغاز پر ملک کو بڑے تجارتی خسارہ کی وجہ سے ادائیگیوں میں بہت بڑے عدم توازن کا سامنا تھا۔ہماری حکومت نے سپلیمنٹری فنانس ایکٹ 2018ء میں درآمدات میں کمی لانے کے لیے کئی اہم اقدامات اٹھائے جن کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ لگژری اشیاء کی درآمد میں بالخصوص پچھلے دو ماہ سے خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔حکومت تجارتی خسارے میں مزید کمی لانے کے لیے ان اقدامات کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

گاڑیوں اور 1800ccسے زیادہ گنجائش رکھنے والی جیپ کے انجن کی درآمد پر پہلے سے 20%فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہے۔ان گاڑیوں اور جیپ کی درآمدات کو مزید کم کرنے کیلئے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح کو 20%سے 25%تک بڑھا دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مقامی طور پر بنائی گئی گاڑیوں اور جیپوں میں استعمال کے لیے درآمد شدہ سی کے ڈی کٹس پر ملک کا بھاری غیرملکی زرمبادلہ صرف ہوتا ہے۔

اس قسم کی درآمدات میں کمی لانے کے لیے تجویز ہے کہ1800ccسے زائد گنجائش کی جیپوں اور گاڑیوں پر10%ایکسائز ڈیوٹی عائد ہے۔اگرچہ ان اقدامات کا مقصد درآمدات میں کمی لانا ہے تاہم اس فناس بل میں انہیں ریونیو اقدامات کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ فی الوقت موبائل فونوں کی مختلف slabs پر کئی طرح کی ڈیوٹیر اور ٹیکسز لاگو ہیں جن میں ریگولیٹری ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس اور موبائل لیوی وغیرہ شامل ہیں۔

اس وجہ سے ٹیکسیشن ڈھانچہ بڑا پیچیدہ ہو گیا ہے۔پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے بھی ملک میں غیر قانونی طور پر لائے گئے موبائل فونوں کی نشاندہی اور انہیں بلاک کرنے کے لییDevice Identification, Registeration and Blocking System (DRIBS) نصب کر دیا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے درآمد شدہ موبائل فونوں کے ٹیکس معاملات کو نئے سرے سے دیکھا جائے تاکہ طلب و رسد میں عدم توازن کی وجہ سے کم لاگت والے موبائل فونوں کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو سکے۔چنانچہ حکومت کا ارادہ ہے کہ موبائل فون کیC&F import valueکی بنیاد پر یکساں اور آسان slabs متعارف کرا کر موبائل فون پر عائد کئی قس�
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات