سپریم کورٹ نے خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ کیس میں ملزم کی سزاسے متعلق ہائیکورٹ کافیصلہ کالعدم قراردیدیا، سیشن کورٹ کا فیصلہ برقرار

بدھ 23 جنوری 2019 23:14

سپریم کورٹ نے خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ کیس میں ملزم کی سزاسے متعلق ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جنوری2019ء) سپریم کورٹ نے خدیجہ صدیقی نامی قانون کی طالبہ پر کلاس فیلو شاہ حسین کے قاتلانہ حملہ کیس میں ملزم کی سزاسے متعلق ہائیکورٹ کافیصلہ کالعدم قراردیدیا ہے اور سیشن کورٹ کا فیصلہ برقراررکھتے ہوئے واضح کیا ہے کہ خدیجہ صدیقی ملزم کو بخوبی جانتی تھی ،دونوں کلاس فیلو تھے، لیکن اس کے باوجود ملزم کو پانچ روز بعد نامزد کیا گیا بدھ کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، یادرہے کہ واقعہ کے بعد ٹرائل کورٹ نے ملزم کوسات سال قید کی سزا سنائی تھی جوسیشنٰ جج نے کم کرکے پانچ سال کردی تھی بعد ازاں ہائیکورٹ نے ملزم کوبری کردیاتھا جس کیخلاف خدیجہ صدیقی نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا،اس موقع پرچیف جسٹس نے استفسارکیاکہ کیا ملزم شاہ حسین بھی عدالت میں موجود ہے جس پر عدالت کوبتایا گیا کہ ملزم عدالت میں موجود ہی.عدالت کو درخواست گزار خدیجہ صدیقی کے وکیل نے پیش ہوکرموقف اپنایا کہ ہائیکورٹ نے کیس کے مکمل شواہد کو نہیں دیکھاحالانکہ ٹرائل کے دوران خدیجہ صدیقی کی بہن بھی بطور گواہ پیش ہوئی تھی ، توچیف جسٹس نے ان سے کہا کہ عدالت یہ جائزہ لے گی کہ ہائیکورٹ نے جونتیجہ نکالا ہے وہ شواہد کے مطابق ہے یانہیں ، فاضل وکیل نے مزید بتایاکہ خدیجہ صدیقی ملزم کہ کلاس فیلو تھی. لیکن واقعہ کے دوران ملزم نے خدیجہ پر خنجر کے 23 وار کئے جن میں سے دووار اس کی گردن پرکئے گئے تھے، ڈاکٹروں کے مطابق جب خدیجہ کو ہسپتال لایا گیا اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا. چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ خدیجہ صدیقی ملزم کو اچھی طرح جانتی تھی دونوںکلاس فیلو تھے، لیکن اس کے باوجود ملزم کو 5 دن کے بعد نامزد کیا گیا تھا آخرکیوں ایسا کیا گیاجس پر فاضل وکیل نے عدالت کوبتایاکہ حملے کے وقت خدیجہ صدیقی حواس میں نہیں تھی حملے کے بعدخدیجہ نے ڈاکٹر کو بھی پہچاننے سے انکار کیاتھا ملزم نے میر ی موکلہ پرپوری سوچ سمجھ کے ساتھ خنجر سے حملہ کیا تھاکیونکہ اس نے کار کے ڈرائیور پر تو حملہ نہیں کیا، توچیف جسٹس نے ان سے استفسارکیاکہ حملے کے وقت حدیجہ کی بہن توہوش وحواس میں تھی توپھر کیوں ملزم کو تاخیر سے مقدمے میں نامزد کیا گیا،اس نے بھی ملزم کی نشاندہی میں تاخیر کی ہے،بتایا جائے کہ خدیجہ کو لگے زخم کتنے گہرے تھے ،جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ 12 زخم 2 سینٹی میٹرز کے تھے،توچیف جسٹس نے ان سے کہاکہ خدیجہ کی گردن کے اگلے حصے پر کوئی زخم نہیں تھا، اس لئے وہ اس معاملے پر بول سکتی تھی کیونکہ یہ بات طے ہے کہ خدیجہ ہسپتال میں بات کر رہی تھی ،ڈاکٹرز اس سے سوال کر رہے تھے تو سرجن نے ان کو باہر نکال دیا، تاہم خدیجہ نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ حملہ آور لڑکا ہی. جس پرفاضل وکیل نے کہاکہ خدیجہ حملے کے بعد حواس میں نہیں تھی اور ڈاکٹر وں کے مطا بق اس کی حالت خطرے میں تھی اسی لئے تفتیشی افسر اس کا بیان ریکارڈ نہیں کر سکا تھا، چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ خدیجہ نے پانچ روز بعد ملزم کا نام بتایا تھا توفاضل وکیل نے کہا کہ خدیجہ زخمی ہونے کے بعد پانچ روز بعد ہوش میں آئی تھی تب اس نے فوری طور پر ملزم شاہ حسین کا نام لیا تھا سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں قانون کے طالبعلم تھے، لہذا انہوںنے قانون کا عملی مظاہرہ کرنے کافیصلہ کیا، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ملزم لڑکی میں دلچسپی رکھتا تھا، تو وہ اسے کیوں قتل کرنا چاہتا تھا ، اس کے پاس توکئی مواقع تھے اگر وہ چاہتا توکسی بھی وقت اسے قتل کردیتا، آخر اس نے گنجان علاقے میں ہی کیوں لڑکی کوقتل کرنا چاہا کیا یہ بات ریکارڈ پر لائی گئی ہے توخدیجہ کے وکیل نے بتایا کہ 'یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ دونوں بہت قریبی دوست تھے اور حملے سے 7 ماہ قبل دونوں میں تعلق ختم ہو چکا تھا ، اصل معاملہ یہ ہے کہ ا س معاملے میں شاہ حسین اصرار جبکہ خدیجہ انکار کرتی رہی، اس کیس میں تفتیش بھی ناقص رہی چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور میں خطے کی اولین اور دنیا کی دوسری بہترین فرانزک لیب موجود ہے جوہمارے لیے ایک قابل فخر بات ہے تاہم اس طرح کے مقدمات میں دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں ، یعنی اول یہ کہ اگرتو میری نہیں تو کسی اورکی بھی نہیں۔

(جاری ہے)

دوسری یہ کہ لڑکی کے پاس کچھ ایسا معاملہ ہو، جس سے لڑکے کو بلیک میل کیا جائے۔ سماعت کے دوران ملزم شاہ حسین نے عدالت کوبتایا کہ باہمی تعلقات کے خاتمے اور شادی سے انکار کی وجہ سے اس کا نام لیا گیا ہے خدیجہ صدیقی نے جرح کے دوران مجھے بھیجے گئے خطوط پر اعتراض کیا تھا ،استغاثہ نے مجھے منتشر ذہن کا حامل شخص قراردینے کی کوشش کی ہے '۔دوسری جانب خدیجہ صدیقی کا کہناتھا کہ حسین مجھے جذباتی طورپر بلیک میل کر رہا تھا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس کے استفسارپرخدیجہ صدیقی نے بتایا کہ اسے واقعہ کے حوالے سے بہت کم باتیں یاد ہیں، حتٰی کہ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے بولا بھی تھا یا نہیں اورمجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میں زندہ بھی ہوں یا نہیں' عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا اورسیشن جج کافیصلہ برقراررکھتے ہوئے ملزم شاہ حسین کو گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا ۔