سال2018-19 میں پانی کی 38 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، ارسا نے پانی کی قلت کے حساب سے سندھ کو پانی دیا جس پرہمیں اعتراض ہے، وزیراعلیٰ سندھ

جمعرات 24 جنوری 2019 20:16

سال2018-19 میں پانی کی 38 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، ارسا نے پانی کی قلت کے حساب ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جنوری2019ء) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سال 2018-19 میں مجموعی طور پر پانی کی 38 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، ارسا نے مجموعی پانی کی قلت کے حساب سے سندھ کو پانی دیا جس پرہمیں اعتراض ہے۔انہوں نے یہ بات جمعرات کو سندھ اسمبلی میں محکمہ آبپاشی سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کاوزارت آبپاشی کے انچارج وزیر کی حیثیت سے جوا ب دیتے ہوئے کہی۔

جی ڈی اے کے عارف مصطفی جتوئی نے دریافت کیا کہ 1991کے واٹر اکارڈ پر سندھ کی جانب سے کس نے دستخط کئے تھے جس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ1991 واٹر اکارڈ پر سینیٹر مظفر حسین شاہ، اٴْس وقت کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور وزیر اعلی جام صادق علی کے دستخط ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جب دریاوں میں اضافی پانی ہوتاہے تویہ مسائل نہیں ہوتے ، اور جب دریاوں میں پانی کم ہوتا ہے تو پانی کا کوٹہ کم کردیا جاتاہے ،اس سال سندھ میں پانی کی شدید قلت ہے ،امید ہے کہ وزیراعظم جلد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلائینگے۔

انہوں نے کہا کہ نہری نظام پر ٹیلی میٹری سسٹم لگانے کا کام واپڈا کررہاہے ،ہم چاہتے ہیں کہ ٹیلی میٹری سسٹم لگایاجائے ،ہمیں خدشہ ہے کہ تونسہ سے جب پانی آتاہے تو شکوک شبہات پیداہوتے ہیں،ہمارے مطالبے کے باوجود ٹیلی میٹری سسٹم نہیں لگایاگیاوزیراعلی مرادعلی شاہ نے کہا کہ کیماڑی کو ضلع بنانے کی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔عارف مصطفی جتوئی نے دریافت کیا کہ رائٹ بینک اوٹ فال ڈرین پر کتنے فیصد کام مکمل ہوچکا ہی وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ آر بی اوڈی منصوبہ 2004میں شروع ہوا تھابدقسمتی سے آر بی اوڈی منصوبہ کئی وجوہات کے سبب مکمل نہیں ہوا ،رائٹ بینک اوٹ فال ڈرین منصوبے کی ابتدائی لاگت 11ارب روپے تھی ،اب آر بی اوڈی منصوبے کی لاگت اب 62ارب روپے ہوچکی ہے ،وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ آر بی او ڈی منصوبہ وفاقی حکومت کاہے اوروفاقی حکومت نے آر بی او ڈی منصوبے کے لئے فنڈز دینے سے انکارکردیا ہے ۔

انہوںنے کہا کہ رائٹ بینک اوٹ فال ڈرین کاسوال وفاقی حکومت سے پوچھا جائے ۔انہوں نے کہا کہ پانی کاہر منصوبہ کم لاگت سے شروع یوتا اور اختتام تک اربوں روپے کا اضافہ ہوجاتاہے۔جس پر قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ یہ شرمندگی کی بات ہے کہ کے فور ہویاآر بی او ڈی لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے ، انہوں نے کہا کہ اگر انجینئرز ڈیزائن تخمینہ لاگت اور منصوبہ بندی درست نہیں کررہے توپھرہمیں انجینئرنگ یونیورسٹیز میں تدریس کو بہترکرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ منچھرجھیل میں پانی کا بڑا زریعہ بارشیں تھیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اب بارشوں کاسسٹم کم ہوگیاہے ۔انہوں نے کہا کہ منچھرجھیل کو تباہ ہوتے دیکھ کر میرا دل بہت پریشان ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ اس جھیل کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں ۔وقفہ سولات کے دوران وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ اور اپوزیشن ارکان، ااسپیکر اور مرادعلی شاہ کے درمیان دلچسپ جملوں کاتبادلہ بھی ہوا جبکہ جی ڈی اے کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی کی وزیر اعلیٰ کے ساتھ نوک جھوک بھی ہوئی۔

جی ڈی اے کے عارف مصطفی نے کہا کہ مجھے بھی دومنٹ بات کرنے کاموقع دیاجائے جس پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آپ میرے آفس آجائیں،چائے بسکٹ پیش کرونگا ۔ جس پر عارف جتوئی نے اسپیکر سے کہا کہ وزیراعلی ٰنے دعوت دیدی ہے اسپیکر صاحب آپ کب بلائیں گے عارف جتوئی نے آغا سراج درانی سے کہا کہ جب وزیر تھے تو دعوت دیتے تھے۔ایوان کی کارروائی کے دوران سندھ اسمبلی میں بغیر اجازت بات کرنے پر اسپیکر نے حلیم عادل کو چٴْپ کروا دیا ۔

اسپیکر نے بلااجازت بولنے پر حلیم عادل شیخ سے کہا کہ آپ کا بلڈ پریشر ہائی ہوجاتا ہے جاکر ڈاکٹر کو دکھائیں۔ قائد حز ب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے وزیر اعلیٰ سندھ سے کہا کہ آپ نے کل پاکستان ٹوٹنے اور ڈوبنے کا الزام لگایا کیا اس میں صداقت ہے ۔جس پر وزیر اعلیٰ نے وضاحت کی کہ سازشیں کرنے والے نیست و نابوت ہوجائیں گے۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کے اس جملے پر اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ شروع کردیا اورحلیم عادل شیخ سیخ پا ہوگئے ، وزیر اعلیٰ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے انہیں اسپیکر نے نصرت سحر عباسی کے وزیر اعلیٰ سندھ سے متعلق ریمارکس ایوان کی کارروائی سے حذف کرادیئے۔