ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی حکومت کے لیے ڈیموکریٹس کو پیشکش

ملک کی ترقی کے لیے سیاسی تفریق اور پارٹی سوچ سے بالا تر ہوکر، اتحاد اور تعاون کی بنیاد پر ملکی مفاد میں قانون سازی کی جائے . اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 6 فروری 2019 10:59

ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی حکومت کے لیے ڈیموکریٹس کو پیشکش
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 فروری۔2019ء) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے سیاسی تفریق اور پارٹی سوچ سے بالا تر ہوکر، اتحاد اور تعاون کی بنیاد پر ملکی مفاد میں قانون سازی کی جائے . اسٹیٹ آف دی یونین کے براہ راست خطاب میں انہوں نے کہا کہ ملک کو ایک بحرانی صورت حال درپیش ہے جس سے نبرد آزما ہونے کی فوری ضرورت ہے‘ ملک کو ضابطوں کے خلاف اور غیر قانونی امیگریشن سے نجات دلانے کی ضرورت ہے جس کے لیے موثر قانون سازی کی جائے‘صدر نے ڈیموکریٹ پارٹی سے اپیل کی کہ وہ اس ضمن میں ان کی انتظامیہ کی مدد کرے.

(جاری ہے)

ا نہوں نے معاشی ترقی کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور کہا کہ بے روزگاری کے اعداد وشمار کم ترین سطح پر ہیں جبکہ شرح نمو خاصی بہتر ہے‘کہ وقت آگیا ہے کہ لڑائی سے اجتناب کیا جائے اور اپنے قیمتی وسائل ملکی ترقی پر خرچ کیے جائیں.

امریکی صدر نے کہا کہ ہمارا ایجنڈا یہ ہے کہ یہ کسی ایک جماعت کی حکومت نہ ہو، بلکہ سب مل کر امریکی عوام کے مفاد کے لیے کام کریں. انہوں نے کہا کہ عراق اور شام میں داعش کو کنٹرول کیا گیا ہے‘ آج اس وحشی دہشت گرد گروہ سے تقریباً تمام علاقہ واگزار کرا لیا گیا ہے. ٹرمپ نے اعلان کیا کہ فروری کی 27 اور 28 کو وہ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان سے ویتنام میں ملاقات کریں گے‘ صدر نے کہا کہ پچھلے 15 ماہ کے دوران، شمالی کوریا نے کوئی میزائل تجربہ نہیں کیا.

انہوں نے کہا کہ ان کے کم جونگ ان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، جس کا امریکہ کو فائدہ ہوگا. ایران کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ ایک سرکردہ مطلق العنان، قدامت پسند اور دہشت گرد ملک ہے جو”مرگ بر امریکہ“ کے نعرے لگاتا ہے اور یہودی عوام کی نسل کشی کی باتیں کرتا ہے جو قابل برداشت بات نہیں. صدرٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے گذشتہ سال نہ صرف ایران کے ساتھ کیے گئے غلط بین الاقوامی جوہری معاہدے سے امریکہ کو الگ کیا بلکہ ایران کے خلاف سخت ترین تعزیرات عائد کیں.

افغانستان کے بارے میں صدر نے کہا کہ دو عشروں کی لڑائی کے بعد وقت آگیا ہے کہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے، جس کے لیے طالبان سے بات چیت جاری ہے، جو بھی مذاکرات میں دلچسپی رکھتے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ امریکی انخلا کے بعد بھی افغانستان میں انسداد دہشت گردی کا کام جاری رہے گا. انٹرمیڈئیٹ نیوکلیئر میزائل (آئی این ایف) معاہدے کے حوالے سے، ٹرمپ نے کہا کہ تاریخی طور پر امریکہ اس کی پاسداری کرتا رہا ہے جبکہ روس شروع ہی سے من مانی کرتا آیا ہے جس بنا پر امریکہ نے معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا ہے.

تجارتی سمجھوتوں کے بارے میں ٹرمپ نے کہا کہ چین کے ساتھ نیا معاہدہ طے کیا جائے گا، جس سے امریکی روزگار کے مواقع ملک واپس آئیں گے اور امریکی انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس کا مناسب دفاع ممکن ہو سکے گا. ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ موثر ڈفینس میزائل سسٹمز تیار کر رہا ہے‘ امریکی سیکورٹی اور دفاع کو مضبوط تر بنایا جا رہا ہے، ملکی دفاعی مد میں گذشتہ سال 700 ارب ڈالر جبکہ اس سال 716 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں.

ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے اسٹیسی ابرامز نے صدر کے خطاب کا جواب دیا‘ وہ سیاہ فام امریکی ہیں جنھوں نے نومبر میں جارجیا کے گورنر کا انتخاب لڑا تھا. اس سے قبل کانگریس کے ایوان میں آمد کے موقعے پر اسپیکر نینسی پیلوسی نے صدر کو خوش آمدید کہا. دوسری جانب برسراقتدار ری پبلکین پارٹی کے سینیٹرز نے پارٹی کے برخلاف جاتے ہوئے ہوئے ایک ایسی ترمیم منظور کرلی جوصدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام و افغانستان سے فوجی دستے واپس بلانے کے اعلان کو مسترد کرتی ہے.

اس قرار داد کے حق میں 70 جبکہ مخالفت میں 26 ووٹ پڑے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکا کو شام و افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں سے مسلسل خطرہ ہے جس کے باعث کسی بھی ملک سے امریکی فوج کے اچانک انخلا کی صورت میں امریکا کے انتہائی مشکل سے حاصل کیے گئے فوائد اور امریکی قومی سلامتی کو خطرہ ہوسکتا ہے. امریکی سینیٹ میں حکمراں جماعت ریپبلکن سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی تعداد 53 ہے اس کے باوجود یہ قرارداد باآسانی منظور کرلی گئی کیونکہ ان میں سے 46 اراکین نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیے.

اس سے یہ پیغام بھی واضح ہوا کہ امریکی سینیٹرز اگر کسی معاملے پر صدر سے اتفاق نہیں رکھتے تو وہ اپنی ہی جماعت کے صدر کے خلاف بھی ووٹ دے سکتے ہیں. اس کے ساتھ 23 ڈیموکریٹ اراکین نے بھی قرارداد کے حق میں ووٹ دیے جبکہ امریکی سینیٹ میں ریپبلکن اراکین کی کل تعداد 53 میں سے محض 3 نے اس کی مخالفت کی جبکہ اب اسے مشرقِ وسطیٰ پر وسیع تر سیکورٹی بل میں شامل کرلیا جائے گا.

دوسری جانب ایک امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ اس طرح کا اختلاف انہیں اپنا ارادہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا. انخلا کے اعلان کے خلاف ریپبلکن سینیٹرز کی بڑی تعداد کے ووٹ کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ 2016 کے انتخابات میں انہوں نے 14 ریپبلکن امیدواروں کے خلاف بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کرلی تھی. اس حوالے سے سینیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر میک کونیل نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی قومی مفادات کے فروغ کے لیے سفارتی اور فوجی آپشنز، دونوں کے استعمال کی ضرورت ہے.

انہوں نے کہا کہ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنے نقطہ نظر اور میدان میں لڑتے ہوئے مرد و خواتین کے ساتھ اپنی وابستگی کے عزم کی دوبارہ توثیق کرنی ہے تا کہ یہ جاری رہے. سینیٹر میک کونیل نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ 2 جماعتوں میں منقسم اس ایوان کے اکثر اراکین نے ان کی پیش کردہ ترمیم کے حق میں ووٹ دیا.