Live Updates

بین الاقوامی قانون کشمیر میں تحریک آزادی کو قانونی جواز دیتاہے، جنرل زبیر محمود حیات

بھارت نے کمزور موقف کے باوجود بین الاقوامی قوانین کو بطور ہتھیار استعمال کیا، احمر بلال صوفی دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش میں بھارتی عدم تعاؤن کی بنیاد پر بہترین متبادل بیانیہ تشکیل دیا جاسکتاہے،عالمگیریت کے اس دور میں بین الاقوامی قوانین کے بہتر استعمال سے پاکستان اپنا جائز حق جیت سکتاہے،بین الاقوامی قوانین کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے موضوع پر سیمینار سے سید کمال شاہ،افراسیاب مہدی اورخالد بنوری کا خطاب

بدھ 6 فروری 2019 20:06

بین الاقوامی قانون کشمیر میں تحریک آزادی کو قانونی جواز دیتاہے، جنرل ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 فروری2019ء) چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے کہا ہے کہ جنگ اور قانون کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ عالمی منظرنامے میںبین الاقوامی قوانین کے ذریعے قومی مفادات کا تحفظ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس کو فیصلہ کن اہمیت حاصل ہوتی جا رہی ہے کشمیر اور سرکریک سمیت کئی امور پر بین الاقوامی قوانین واضح ہیں۔

ان کا نتیجہ سامنے آنا چاہئے۔جنرل زبیرمحمود نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو یہاں ریسرچ سوسائٹی برائے بین الاقوامی قوانین کے زیراہتمام منعقدہ سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمنار کا موضوع تھا: ’ بین الاقوامی قوانین کا بطور آلات حرب استعمال؛ ممبئی حملوں کے تناظر میں بھارتی حکمت عملی کا ایک مطالعہ۔

(جاری ہے)

سیمنار سی(آرایس آئی ایل) کے صدر اور معروف قانون دان احمر بلال صوفی ، سابق سیکریٹری داخلہ سید کمال شاہ،بھارت کے لئے پاکستان کے سابق سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی اور آرمز کنٹرول ڈویژن کے سابق سربراہ خالد بنوری نے بھی خطاب کیا۔

جنرل زبیرمحمود نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ قانون سازی کے معاملات کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر دیکھنا ہوگا۔ لافئیر دراصل سافٹ پاور کا یک جزو ہے۔انہی قوانین کے نتیجے میںاقوام متحدہ وجود میں آیا۔ 9/11 کے بعد پوری دنیا کی پالیسیوں میں تبدیلیاں آئیں۔ بین الاقوامی قوانین ہی اقوام کو مشترکہ طور پر ایک جگہ اکھٹے کرتے ہیںمگر ان قوانین کو زاتی اور تزویراتی مفادات کے لئے استعمال کیا گیا۔

کشمیر، سیاچن اور سرکریک پر مشاہدات اور قوانین موجود ہیں۔ دوسری اقوام پر زبردستی اور دباؤ بڑھانے کے لئے بھی قوانین کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ انسانی حقوق کا بھی بین الاقوامی قوانین کے ساتھ تعلق ہے۔ کشمیرمیںحق خود ارادیت کو کبھی بھی دہشت گردی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ بین الاقوامی قانون اس کی ضمانت دیتا ہے۔ہم کشمیر سمیت تمام تنازعات کا پر امن حل چاہتے ہیں۔

سمجھوتہ ایکسپریس اور دیگر حادثات کا قانونی نتیجہ نکلنا چاہئے۔پاکستان اندرونی اور بیرونی امن کا خواہاں ہے۔ اس سے قبل آر آئی ایس ایل کے سربراہ احمربلال صوفی نے اپنے کلیدی خطاب میں 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا ور ان قوانین کے استعمال سے حاصل کئے جانے والے فوائد پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے عالمگیریت کے اس دور میں بین الاقوامی قوانین کودشمن کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت عملی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک قوم کی حیثیت سے پاکستان کے لئے بین الاقوامی قوانین کو اپنے حق میں استعمال کرنا نہایت اہم ہے۔انہوں نے عالمی سطح پر بین الاقوامی قوانین کے استعمال کی متعدد مثالیں دے کر واضح کیا کہ کس طرح پاکستان ان قوانین پر کام کرکے عالمی رائے عامہ کو اپنے منصفانہ موقف کے حق میں میں ہموار کرسکتاہے۔

احمر بلال صوفی نے اجمل قصاب اور ذکی الرحمن لکھوی کے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس طرح کے واقعات میں حقیقت تک پہنچنے کی کوشش میں بھارت کی طرف سے مسلسل عدم تعاؤن کی بنیاد پر بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ایک متبادل بیانیہ تشکیل دے سکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ ان معاملات میں بھارت نے جو ’شہادتیں‘ پیش کی تھیں وہ خود بھارتی عدالتوں میں بھی قانون کی روشنی میں قابل قبول نہیں تھیں اور خود بھارتی سپریم کورٹ نے ان کو مسترد کیا ہے۔

دنیا بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی کے اگلے دن ہونے والے اس سیمنار کے موقع پر احمر بلال صوفی نے یہ بھی کہا کہ کس طرح بھارت بین الاقوامی قوانین کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے کشمیر کے قانونی جدوجہد کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے حق خودارادیت کا انکار کرتا آرہاہے۔ اس سلسلے میں مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے اپنی تجاویز دیتے ہوئے احمر بلال صوفی نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی قانونی تعاؤن کے فریم ورک کو بہتر بنانے،متعلقہ کرداروں کی صلاحیت بہتر بنانے،کشمیریوں کی قربانیوں ور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق ایک پرامن جنوبی ایشیا کے لئے پاکستان اور بھارت کوباہمی تعلقات بہتر بنانے کے لئے ان مسائل کو حل کرنا ہی پڑے گا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات