افغان حکومت کی غیر موجودگی میں مذاکرات کی کامیابی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا، میاں افتخار حسین

چالیس سال سے سرحد کے آر پار پختونوں کا خون بہہ رہا ہے ،موجودہ مشکل ترین دور پختونوں کے اتحاد و اتفاق کا متقاضی ہے ، ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں اضافہ ملکی سلامتی کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے، نیشنل میڈیا نے ارمان لونی قتل اور خیسورکے واقعات کا بائیکاٹ کئے رکھا

جمعرات 7 فروری 2019 19:28

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 فروری2019ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ گزشتہ چالیس سال سے سرحد کے آر پار پختونوں کا خون بہہ رہا ہے ،موجودہ مشکل ترین دور پختونوں کے اتحاد و اتفاق کا متقاضی ہے اور پختونوں کا خون بہا روکنے کیلئے تمام ممکنہ کوششیں خطے کے مفاد میں ہیں،ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوشہرہ میں اے این پی کے سابق مرکزی صدر اجمل خٹک کی برسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، میاں افتخار حسین نے کہا کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے مشروط ہے اور مترقی و پرامن پاکستان کیلئے مترقی و پرامن افغانستان کا ہونا بہت ضروری ہے، انہوں نے امن مذاکرات کے حوالے سے ایک بار پھر واضح کیا کہ ہم امن مذاکرات کی کامیابی کیلئے بدستور دعا گو ہیں تاہم تمام سٹیک ہولڈرز کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس مذاکراتی عمل میں افغان حکومت کی شرکت یقینی بنائیں، افغانستان کی حکومت امن عمل کی اہم فریق ہے اور فریق کی غیر موجودگی میں مذاکرات کی کامیابی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ، انہوں نے کہا کہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں بتدریج اضافہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے اور پختونوں کے ساتھ ریاست اور میڈیا کے امتیازی سلوک سے احساس محرومی پیدا ہو رہا ہے، لورالائی میں پشتون سیاسی کارکن اور پروفیسر ارمان لونی کی شہادت اور بعد میں اُس کو ہارٹ اٹیک کا رنگ دینا بھی نہایت ہی افسوسناک ہے،انہوں نے کہا کہ اپنے مطالبات کیلئے پر امن احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور احتجاج پر لاٹھی چارج اور دھاوا بولنا تشدد کی نئی شکل اختیار کر چکی ہے،میاں افتخار حسین نے کہا کہ قبل ازیں ،نقیب اللہ محسود،طاہر داوڑ ،سانحہ خیسور ، ساہیوال اور اب ارمان لونی کی شہادت سے شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں اور انسانیت کے قتل کے یہ واقعات حکومتی رٹ پر سوالیہ نشان ہیں، انہوں نے کہا کہ تمام واقعات کو میڈیا پر کوریج دی جاتی رہی تاہم خیسور اور ارمان لونی قتل کو میڈیا پر دبایا گیا ،انہوں نے کہا کہ اس قسم کی تفریق سے پختونوں میں احساس محرومی پیدا ہو رہا ہے ،دوسری جانب حقائق سامنے نہ آنے کی وجہ سے پولیس اور لواحقین کے بیانات میں بھی تضاد ہے ۔

(جاری ہے)

میاں افتخار حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی کا انداز انوکھا ہے ،اپوزیشن کا کوئی فرد نیب گرفتار کریں تو پی ٹی آئی شور برپا کردیتی ہے کہ سارے چور،ڈاکو اور کرپٹ اپوزیشن کا حصہ ہے اور جب مصلحتاً پی ٹی آئی کا کوئی فرد گرفتار ہوتا ہے تو پھر شور اٹھتا ہے کہ فلاں نے استعفیٰ دیکر مثال قائم کیا ہے یعنی پی ٹی آئی کا چور ہیرو اور باقی سب زیرو ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علیم خان کو نیب کی جانب سے ایمانداری کا سرٹیفیکیٹ جلد ملنا والا ہے جس کے بعد اپس کو تخت لاہور پر بٹھادیا جائیگا۔میاں افتخار حسین نے کہا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کو چور اور ڈاکو کہنے والے ان جماعتوں سے چور ڈاکو اکٹھے کر کے اپنی لولی لنگڑی حکومت کو سہارا دیا لیکن بیساکھیوں کے سہارے کھڑی حکومت کسی بھی وقت گر سکتی ہیں،اے این پی بلا امتیاز احتساب کے حق میں ہے ،حکومت شفاف احتساب میں مخلص ہے تو ذاتی پسند و نا پسند سے قطع نظر احتساب کا عمل اپنے گھر سے شروع کرے ،انہوں نے کہا قبائیلی اضلاع کی ترقی کیلئے مختص فنڈز میں عوامی نیشنل پارٹی کسی صورت کٹوتی برداشت نہیں کریگی ، وفاق کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا حکومت کو بھی فاٹا کو اپنے جائز حقوق اور فنڈز دینے ہونگے تاکہ قبائیلی اضلاع کے پسماندگی کو ختم کیا جاسکے،میاں افتخار حسین کا اس موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ مرحوم اجمل خٹک نے پشتوونوں کے معاشرے میں رہتے ہوئے غربت کے باوجود نہ مٹنے والا نام پیدا کیا جو پشتونوں کے معاشرے میں ایک غریب سیاسی ورکر کیلئے بہت ہی مشکل کام ہے،انہوں نے کہا کہ مرحوم اجمل خٹک نے عدم تشدد کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی سیاست بھی کی اور یہی وجہ ہے کہ یہی انداز اُن کی شخصیت کو منفرد بناتی ہے،انہوں نے کہا کہ ادب اور صحافت کے علاوہ ہمیں مرحوم اجمل خٹک کی سیاسی زندگی بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اُن کی سیاسی زندگی اُن کی ادبی اور صحافتی زندگی پر بالا ہے اور سیاست میں ہی انہوں نے زندگی کے نشیب وفراز دیکھیں جنہیں بعد میں قلم کے ذریعے محفوظ کیا۔

اس موقع پر میاں افتخار حسین کے ساتھ باچا خان مرکز کی نمائندگی پر منتظم باچا خان مرکز انجینئر اعجاز یوسفزئی اور دیگر پارٹی عہدادار بھی موجود تھے۔