افغانستان سے فوجیں نکالنے کے لیے امریکی صدر نے پینٹاگون کو پلان تیار کرنے کی ہدایت کردی

پاکستان خطے کے اہم ترین ملک کی حیثیت سے ابھر رہا ہے‘قومی حکومت قائم کرکے یا اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کی زیرنگرانی انتخابات مسلہ کا حل ہوسکتے ہیں . ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 14 فروری 2019 10:10

افغانستان سے فوجیں نکالنے کے لیے امریکی صدر نے پینٹاگون کو پلان تیار ..
کابل(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 فروری۔2019ء) امریکی صدر نے افغانستان سے فوجیں نکالنے کے لیے پینٹاگون کو باضابط طور پر پلان پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے . امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی محکمہ دفاع اور وار انڈسٹری لابی کی مخالفت کے باوجود صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم رواں سال کے وسط تک فوجیں نکالنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تاہم افغان طالبان سمیت کئی فریق اس کے لیے تیار نہیں .

(جاری ہے)

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان افغانستان میں انتخابات سے قبل فوجیں نکالنے کے حامی نہیں انہوں نے امریکا کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ انتخابات سے قبل جنگ بندی کا معاہدہ اور فوجیں نکالنے کا سیاسی فائدہ موجودہ صدر اشرف غنی اور شمالی اتحاد والوں کو ہوگا . طالبان کا موقف ہے کہ یا تو انتخابات ملتوی کیئے جائیں اور افغانستان کی سیاسی قیادت کے درمیان ایک قومی حکومت بنانے کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جائے دوسری صورت میں تمام ممالک سے آنے والے افغان نژاد(جن کی بڑی تعداد اس وقت اہم حکومتی عہدوں پر ہے ) وہ اپنے اختیاری ممالک میں واپس چلے جائیں کیونکہ افغان طالبان انہیں بھی خارجی یا غیرملکی سمجھتے ہیں ‘طالبان کے نزدیک مختلف ممالک کی شہریت رکھنے والے ان افغان نژاد افراد کو مخصوص مقاصد کے لیے افغانستان لایا گیا تھا صورتحال کی تبدیلی کے بعد ان کا رول افغان سیاست میں ختم ہوگیا ہے لہذا انہیں واپس لے جایا جائے اور افغانستان کے قبائل اور عوام مل کر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں .

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا طالبان سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے سامنے آنے والے اس مطالبے پر سنجیدگی سے غور کررہا ہے اور غالب امکان ہے کہ مذکرات کے اگلے ادوار میں اس مطالبے کو بھی مان لیا جائے . رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکا افغانستان کے راستے یورپ تک کے اس قدرتی اور اہم ترین ٹریڈ روٹ میں بڑے سانجھے دار کا کردار چاہتا ہے اور درجنوں امریکی کمپنیاں اس کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے خطے کی دو اہم طاقتوں روس اور چین کی آمادگی بھی ضروری ہے کیونکہ دونوں بڑی طاقتوں کی منشاءکے بغیر امریکا کے لیے ممکن نہیں کہ وہ وسط ایشیائی ریاستوں سے ہوتا ہوا یورپ تک زمینی راستے تک رسائی حاصل کرئے .

روس کے زیر اثر وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ امریکا نے کئی بار براہ راست معاملات طے کرنے کی ناکام کوششیں کرچکا ہے اور ماسکو کی جانب سے انہیں باور کروایا جاتا رہا ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کا راستہ ماسکو سے ہوکر گزرتا ہے . رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس سارے معاملے انتہائی اہم ملک ہے افغانستان کے راستے سے یورپ تک کا ٹریڈ روٹ کھلنے کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا کیونکہ چمن سے لے کر طورخم تک افغانستان کی طویل سرحد پاکستان کے ساتھ ہے اور سب سے قریب گرم پانیوں کی بندرگاہیں بھی پاکستان کے پاس ہیں‘اسی طرح وسط ایشیائی ریاستوں اوریورپ جیسی بڑی منڈیوں تک چین کی زمینی رسائی کا خواب بھی سی پیک کے ذریعے ہی پورا ہوسکتا ہے.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گوادر میں تعمیراتی اور کاروباری سرگرمیاں اچانک تیزہوگئی ہیں اور بندرگاہ کی تعمیر کے کام میںبھی تیزی آ رہی ہے افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کے ساتھ ہی روس‘چین اور پاکستان افغانستان میں موٹرویز اور ریلولے کا ایک جال بچھانے کا منصوبہ رکھتے ہیں جس کو چند سالوں کے اندر پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے موٹرویزاور ریلولے کے ساتھ جوڑ دیا جائے اس منصوبے میں ممکنہ طور پر امریکا ‘ ترکی ‘سعودی عرب اورایران بھی شامل ہوسکتے ہیں جبکہ بھارت کی بھی کوشش ہے کہ وہ پیچھے نہ رہے جس کے لیے یہ ممالک بیک ڈور چینلزکے ذریعے روس اور چین سے مذکرات کررہے ہیں .دوسری جانب طالبان اور امریکا کے درمیان مذکرات کا اگلا دور اسلام آباد میں ہوگاطالبان کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد افغان امن عمل اور طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے حمایت حاصل کرنے کے سلسلے میں مختلف ممالک کے دوروں پر ہیں ‘تاہم واشنگٹن یا اسلام آباد کی طرف سے طالبان کے اس اعلان کی فوری طور پر تصدیق نہیں کی گئی .

زلمے خلیل زاد نے گزشتہ ماہ قطر میں طالبان راہنماﺅں سے طویل مذاکرات کیے تھے جبکہ مذاکرات کا اگلا دور رواں ماہ کے آخر میں ہوگا . طالبان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکی حکام سے الگ الگ ملاقاتیں ہوں گی، جن میں سے پہلی حکومت پاکستان کی دعوت پر 18 فروری کو اسلام آباد میں ہوگی جبکہ دوحہ میں مذاکرات 25 فروری کو ہوں گے . افغان امن عمل کو آگے بڑھانے اور تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے زلمے خلیل زاد بڑے وفد کے ہمراہ ان دنوں بیلجیئم، جرمنی، ترکی، قطر، افغانستان اور پاکستان کے دوروں پر ہیں .

افغان صدر اشرف غنی جنہوں نے حالیہ مذاکرات میں شامل نہ کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا تھا بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے میونخ روانہ ہوگئے ہیں . افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کی مذاکراتی ٹیم کے ممبران امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے 18 فروری کو پاکستان جائیں گے . طالبان ترجمان کے مطابق پاکستانی حکومت کی جانب سے ایک دعوت پر ایک اور ملاقات اسلامی امارات اور امریکہ کے درمیان 18 فروری کو اسلام آباد میں ہو گی .

اسی دوران طالبان کے کچھ نمائندوں کی ماسکو میں افغان سیاستدانوں اور سماجی کارکنان سے دو روزہ بات چیت ہو گی . تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر واشنگٹن اور کابل میں حکومتیں افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کو موخر کرتے ہوئے پہلے طالبان کے ساتھ شراکت والی عبوری حکومت کے قیام اور شورش زدہ ملک سے بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلا پر اتفاق کریں تو بڑی کامیابی مل سکتی ہے .

تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن کی حکمت عملی میں بظاہر تبدیلی کے پس منظر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی فوجوں کے انخلا کے ساتھ امن عمل کو یقینی بنانے کے لیے سب کو بڑا سرپرائز دے سکتے ہیں . افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمندکا کہنا ہے کہ افغانستان میں انتخابات کو ملتوی کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام، غیرملکی فوجوں کے انخلا پر رضامندی افغانستان میں امن کی راستہ بن سکتی ہے‘ لیکن اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کابل حکومت ہے‘موجودہ حکمران نہیں چاہتے کہ اقتدار میں طالبان شراکت دار بنیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ طالبان سے کہا جائے کہ وہ انتخابات جیت کر آئیںاگر طالبان نے یہ بات ماننا ہوتی تو دس سال پہلے کوئی معاہدہ ہو جاتا .

ایک امریکی تجزیہ نگار کے مطابق گیند امریکہ کے کورٹ میں ہے اور صدر ٹرمپ سب کو چونکا سکتے ہیں‘صدر ٹرمپ ڈیل کے ماہر ہیں بحیثیت بزنس مین بھی وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ لے کچھ دے کی حکمت عملی ہی کارگر رہتی ہے . انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے سے امریکہ کی افغانستان سے متعلق حکمت عملی میں تبدیلی نظر آ رہی ہے‘ پہلی بار یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ طاقت کے بجائے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی خواہش ہے‘ لہٰذا اب گیند امریکہ کے کورٹ میں ہے اور صدر ٹرمپ امریکی فوجوں کے انخلا کے اعلان کے ساتھ سب کو حیران کر سکتے ہیں اس طرح عبوری حکومت کے لیے راستہ ہموار ہو جائے گا .

رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ امریکہ کی سوچ میں تبدیلی نظر آتی ہے اگر عبوری حکومت بنا دی جائے تو جنگ اپنے اختتام کو پہنچ سکتی ہے اسی طرح اسلامی ممالک کی تنظیم کی چھتری تلے غیرجانبدار مسلم فوجوں کی نگرانی بھی بندوبست کا حصہ ہو سکتی ہے‘ سعودی عرب کی موجودگی امریکہ کے ساتھ ڈیل میں بین الاقوامی گارنٹی بن سکتی ہے.