سائبرکرائم ایکٹ کے تحت بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی تیاریاں

ترمیمی قانون میں بعض شقیں دہشت گردی ایکٹ اور آرٹیکل 6کے تحت وضح کردہ قوانین میں سے بھی شامل کی گئی ہیں‘ حکومتی ذرائع

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 14 فروری 2019 14:10

سائبرکرائم ایکٹ کے تحت بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی تیاریاں
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 فروری۔2019ء) وفاقی حکومت رواں ماہ میں سوشل میڈیا پر منافرت پھیلانے اور اداروں کے خلاف پروپگینڈاکرنے والوں کے خلاف سائبرکرائم ایکٹ کے تحت کریک ڈاﺅن کرنے جارہی ہے جس کا باضابط اعلان وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے سامنے آچکا ہے. ذمہ دار سرکاری ذرائع کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارہ کی جانب سے فہرستیں پہلے سے ہی تیار ہیں اور اگلے ہفتے سے پورے ملک میں ایک بڑا آپریشن شروع کیا جائے گا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ہزاروں افراد کی گرفتاریاں متوقع ہیں .

(جاری ہے)

عدلیہ‘حساس اداروں اور فوج کے خلاف پروپگینڈا پر گرفتار افراد کے خلاف ناقابل ضمانت دفعات کے مقدمات درج کیئے جائیں گے‘ترمیمی قانون میں بعض شقیں دہشت گردی ایکٹ اور آرٹیکل 6کے تحت وضح کردہ قوانین کی شقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے. ذرائع کا کہنا ہے کہ ”فیک نیوز“کو بھی سائبرکرائم ترمیمی ایکٹ میں شامل کیا جارہا ہے. دو سال قبل نوازشریف کی وزارت عظمی کے دور میں منظور کیئے جانے والے سائبر ایکٹ2016  کے تحت کسی بھی شخص کے موبائل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ تک بلا اجازت رسائی کی صورت میں 3 ماہ قید یا 50ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں.

اسی طرح کسی بھی شخص کے ڈیٹا کو بلا اجازت کاپی کرنے پر 6 ماہ قید یا 1 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں‘ کسی بھی شخص کے فون، لیپ ٹاپ کے ڈیٹا کو نقصان پہنچانے کی صورت میں 2 سال قیدیا 5 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں. اہم ڈیٹا (جیسے ملکی سالمیت کے لیے ضروری معلومات کا ڈیٹا بیس) تک بلااجازت رسائی کی صورت میں 3سال قید یا 10 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں‘ اہم ڈیٹا کو بلااجازت کاپی کرنے پر 5 سال قید یا 50لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں.

اہم ڈیٹا کو نقصان پہنچانے پر 7سال قید، 1کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں‘ جرم اورنفرت انگیز تقاریر کی تائید و تشہیر پر 5 سال قیدیا 1کروڑ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں. اس قانون میں سائبر دہشت گردی کا عنوان بھی شامل کیا گیا تھا جس کے تحت کو ئی بھی شخص جو اہم ڈیٹا کو نقصان پہنچائے یا پہنچانے کی دھمکی دے یا نفرت انگیز تقاریر پھیلائے ، اسے 14سال قید یا 50 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں.

الیکٹرونک جعل سازی پر 3 سال قید یا ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں‘ الیکٹرونک فراڈ پر 2سال قید یا 1کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں. کسی بھی جرم میں استعمال ہونے والی ڈیوائس بنانے، حاصل کرنے یا فراہم کرنے پر 6ماہ قید یا 50ہزر جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں‘ کسی بھی شخص کی شناخت کو بلا اجازت استعمال کرنے پر 3 سال قید یا 50لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں.

موبائل فون اور انٹرنیٹ کے سم کارڈ کے بلا اجازت اجراءپر 3 سال قید یا 5 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں‘ کمیونی کیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے پر 3سال قید یا 10 لاکھ جرماہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں. بلااجازت سائبر نقب زنی پر 2سال قیدیا 5لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں‘ کسی کی شہرت کے خلاف جرائم:کسی کے خلاف غلط معلومات پھیلانے پر 3 سال قید یا 10 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں.

عریاں تصاویر‘ ویڈیو آویزاں کرنے ‘ دکھانے اور فحش مواد پر 7 سال قید یا 50 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں‘ وائرس زدہ کوڈ لکھنے یا پھیلانے پر 2سال قید یا 10لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں. آن لائن ہراساں کرنے، بازاری یا ناشائستہ گفتگو کرنے پر 1سال قید یا یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا رونوں سزائیں ہو سکتی ہیں‘سپیمنگ پر پہلی دفعہ 50ہزار روپے جرمانہ اور اس کے بعد خلاف ورزی پر 3ماہ قید یا 10 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں جبکہ سپوفنگ پر 3سال قید یا 5لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں.

حکومتی ذرائع کے مطابق ان میں سے بعض قوانین پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی میں ملوث گروہوں اور افراد کے خلاف عمل درآمد بھی کیا گیا تاہم عوامی سطح پر یہ قانون متاثرہ فرد کی شکایت پر ہی حرکت میں آتا تھا تاہم اب ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اور حساس اداروں پر مشتمل ایک مشترکہ میکنیزم بنایا جارہا ہے جس کے تحت سائبر ایکٹ پر سختی سے عمل کیا جائے گا اس کے لیے ملک بھر میں سائبرنگرانی کو بڑھایا گیا ہے.

اس کے لیے نگرانی کا ایک خصوصی ادارہ بھی تشکیل دیا گیا ہے جوکہ پورے ملک میں ہونے والی سائبر سرگرمیوں کی نگرانی کرئے گا اور قابل اعتراض مواد کو بلاک کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے مواد کو فروغ دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی بھی کی جائے گی. ذرائع نے بتایا ہے کہ حال ہی میں حکومت پاکستان کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور مفت ویڈیو اپ لوڈنگ سروس فراہم کرنے والے اداروں کے ساتھ اہم معاہدے ہوئے ہیں جن کے تحت پاکستان میں ان کی رسائی حکومت کے ساتھ تعاون کی صورت میں ممکن رہے گی .