حسین حقانی پر کچھ الزامات ہیں ، ریاست چاہے تو کارروائی کر سکتی ہے ،

عدالت کا کیس سے کوئی تعلق نہیں رہا، سپریم کورٹ نے میمو گیٹ کیس نمٹا دیا مملکت خداد اتنی کمزور نہیں کہ ایک میمو سے لڑ کھڑا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ افواج پاکستان،جمہوریت اور آئین پاکستان بہت مضبوط ہیں، کمزور نہیں،گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، حسین حقانی کی گرفتاری یا حوالگی ریاست کا معاملہ ہے ، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس

جمعرات 14 فروری 2019 15:49

حسین حقانی پر کچھ الزامات ہیں ، ریاست چاہے تو کارروائی کر سکتی ہے ،
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 فروری2019ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ حسین حقانی پر کچھ الزامات ہیں ، ریاست چاہے تو کارروائی کر سکتی ہے ،سپریم کورٹ کا کیس سے فی الحال کوئی تعلق نہیں رہا جبکہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ مملکت خداد اتنی کمزور نہیں کہ ایک میمو سے لڑ کھڑا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ افواج پاکستان،جمہوریت اور آئین پاکستان بہت مضبوط ہیں، کمزور نہیں،گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، حسین حقانی کی گرفتاری یا حوالگی ریاست کا معاملہ ہے۔ جمعرات کو میمو گیٹ اسکینڈل کیس کی سماعتچیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کوئی بھی درخواست گزار عدالت میں موجود نہیں، قومی وطن پارٹی یا نوازشریف کوئی بھی نہیں آیا، درخواست گزار کون ہی اگر کوئی درخواست گزار نہیں آیا تو عدالت یہاں کیوں بیٹھی ہے۔اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ اس معاملے میں کافی حساس معاملات پوشیدہ ہیںجس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس میں عدالت کہاں سے آگئی مسئلہ یہ تھا کہ ایک سفیر نے میمو لکھا، کیا آج یہ حکومت بھی اٴْس میمو سے کوئی خطرہ محسوس کررہی ہی 8 سال سے یہ معاملہ زیر التوا ہے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کہاں ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ کیس پڑھ کر بہت حیرت ہوئی،اگر درخواست گزار نہیں آتے تو ہم کیوں اپنا وقت ضائع کریں ۔

عدالت نے کہاکہ حسین حقانی کی گرفتاری یا حوالگی ریاست کا معاملہ ہے،سپریم کورٹ کا کیس سے فی الحال کوئی تعلق نہیں رہا ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مملکت خداد اتنی کمزور نہیں کہ ایک میمو سے لڑ کھڑا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ افواج پاکستان،جمہوریت اور آئین پاکستان بہت مضبوط ہیں، کمزور نہیں،گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ میمو کے حوالے سے درخواستیں عجلت میں دائر کی گئیں۔

عدالت نے کہا کہ معاملے میں ایف آئی آر درج ہو چکی ہے،ایک کمیشن 2012 میں معاملے کی رپورٹ دے چکا ہے۔ عدالت نے کہاکہ کیا ریاست اب بھی میمو سے خوف محسوس کرتی ہی عدالت نے کہاکہ گزشتہ سماعت پر نیب کو حسین حقانی کو وطن واپس لانے کیلئے کہا گیا تھا،حسین حقانی پر کچھ الزامات ہیں،ریاست چاہے تو کارروائی کر سکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا اب اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب معاملہ عدالت کے سامنے آیا تو حکومت اور سفیر پر الزام تھا، اب وہ حکومت اقتدار میں نہیں اور سفیر بھی نہیں ہے۔بعد ازاں عدالت نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس نمٹا دیا۔یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں اٴْس وقت امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی کا ایک مبینہ خط (میمو) سامنے آیا تھا۔

حسین حقانی کی جانب سے بھیجے جانے والے میمو میں مبینہ طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ایبٹ آباد میں القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی حملے کے بعد ممکن ہے کہ پاکستان میں فوجی بغاوت ہوجائے۔میمو گیٹ میں اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کیلئے امریکہ سے معاونت مانگی گئی تھی تاکہ حکومت ملٹری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قابو میں رکھ سکے اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مذکورہ میمو درست ہے اور اسے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔

کمیشن نے کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد امریکی حکام کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ پاکستان کی سول حکومت امریکا کی حامی ہے۔اس معاملے کو اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف سپریم کورٹ میں لے کر گئے تھے جس کے بعد حکومت نے حسین حقانی سے استعفیٰ لے لیا تھا اور وہ تب سے بیرون ملک مقیم ہیں۔