سرطان کی تشخیص اور علاج بہت مہنگا ہے، اسکے علاج پر کافی خرچ آتا ہے، پروفیسر محمد سعید قریشی

پاکستان میں نیشنل اسکریننگ کے مراکز اور مشینری بھی مناسب تعداد میں موجود نہیں۔اس مہلک مرض کے بارے میں قومی سطح پر آگاہی کی ضرورت ہے کینسر پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہا ہے، اسموکنگ، تباکونوشی، گٹکا اور اس طرح کی دیگر وجوہات کے باعث کینسر میں اضافہ ہورہا ہے

پیر 18 فروری 2019 16:55

سرطان کی تشخیص اور علاج بہت مہنگا ہے، اسکے علاج پر کافی خرچ آتا ہے، ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 فروری2019ء) ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزکے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ سرطان کی تشخیص اور علاج بہت مہنگا ہے، اسکے علاج پر کافی خرچ آتا ہے۔جبکہ پاکستان میں نیشنل اسکریننگ کے مراکز اور مشینری بھی مناسب تعداد میں موجود نہیں۔اس مہلک مرض کے بارے میں قومی سطح پر آگاہی کی ضرورت ہے۔

یہ کام تنہا حکومت نہیں کر پائے گی ، معاشرے کے باشعور طبقات اور مخیر حضرات کو آگے آنا ہوگا۔ یہ باتیں انہوں نے ڈائو یونیورسٹی کے آراگ آڈیٹوریم میں پاکستان کینسر ویلفئیر ایسوسی ایشن کے اشتراک کے ہونے کینسر سے مطالق آگاہی سیمینا ر سے بطورِ مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی۔سیمینار سے ڈائو میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر کرتار ڈوانی، پروفیسر احسن ، پروفیسر ازمینہ تاج، پروفیسر روفینہ سومرو، ڈاکٹر عدنان عبدالجبار، ڈاکٹر جویریہ محمود اوردیگر نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر پروفیسر صبا سہیل، پروفیسر بیلہ سومرو، ڈاکٹر شجاع فرخ، ڈاکٹر رضا حسین،ڈاکٹر ندیم عباسی، ڈاکٹر احسن وقار، میجر جنرل نعیم نقوی، پروفیسر سلیم سومرو، ڈاکٹر عارف جمشید سمیت سینئر فیکٹی ممبر اور بیرونِ ملک کے ڈاکٹر ز سمیت طلبہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ کینسر پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہا ہے، مگر اس میں نمٹنے کے لیے سہولتیں موجود نہیں، اسموکنگ، تباکونوشی، گٹکا اور اس طرح کی دیگر وجوہات کے باعث کینسر میں اضافہ ہورہا ہے، اس کے لیے زیرو سے کا کر نا ہوگا، جب وہ سول اسپتال میں ایم ایس (میڈیکل سپرٹینڈینٹ ) تھے اس پر کام کا آغاز ہوا تھا، اور آج وہاں 56بیڈکا یونٹ موجود ہے، جہاں مریضوں کو علاج فراہم کیا جارہا ہے، لیکن یہاں موجود مریضوں کی تعداد کے لیے ناکافی ہے۔

کینسر کے مطالق آگاہی کے لیے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔انہوں نے دیگر یونیورسٹیزاور بیرونِ ملک سے آنے والے ڈاکٹر ز کی جدید ریسرچ اور سہولیات سے آگاہ کرنے پر شکریہ ادا کیا۔پروفیسر روفینہ سومرو نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد بریسٹ کینسر کی ہے، ہر سال پاکستان میں 1لاکھ نئے مریض بریسٹ کینسر کے رپورٹ ہوتے ہیں، جن کی تعداد بتدیج اضافہ ہور ہا ہے، عام طور پر 40سال یا اس عمر کے مریضوں میں ان کی تعداد زیادہ ہے، مگر ہر عمر کے مریض پاکستان میں رپورٹ ہوئے ہیں، پاکستان کے کلچر کی وجہ سے کافی تعداد میںخواتین ڈاکٹر کے پاس آتی ہی نہیں ہیں، یا پھر حکیموں عطایوں سے دوا لینے کا روراج عام ہے، جس کے سبب مریض ڈاکٹروںتک صحیح وقت پر نہیں پہنچ پاتے، اس کے ساتھ دیگر وجوہات جن میں خواتین کا شرمیلاپن ، کینسر ہونے کا ڈر، نظر انداز کرنا ، مطالقہ ڈاکٹر کے پاس نہ جانا، پیر فقیروں کے پاس علاج کے لیے جانا اور دیگر شامل ہیں، شروع میں اس میں درد نہیں ہوتا ۔

اس مرض کی آگاہی کے لیے اسکول کالج ، یونیورسٹی میںباقاعدہ آگاہی سیمینار کرنے کی ضرورت ہے۔ دیگر مقررین نے کہا کہ دنیا میں کینسر سے اموات کی تعداد تیسری بڑی وجہ گیسٹرو کینسر ہے، جبکہ ہیڈ نیک کے کینسر کی شرح پورے پاکستان میں سندھ میں سب سے زیادہ ہے، مقررین نے کہا کہ کسی بھی کینسر کی ابتدئی حالت میں تشخیص ہوجائے تو علاج ہونے کے امکانات کافی زیادہ ہوتے ہیں، مگر بد قسمتی سے پاکستان میںعام طور پر کینسر کی تشخیص ایسے اسٹیج پر ہوتی ہے، ابتدائی اسٹیج پر اگر مریض ہوتو معمولی سرجری سے علاج ممکن ہے، مگر بعد میں کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی کی جاتی ہے۔

جب علاج کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تشخیصی مراکزکی تعداد بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔مقرین کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے روز مرہ انداز زندگی میں تبدیلی کی ضرورت ہے، فاسٹ فوڈ کھانا، ڈبہ کا دودھ ، جوس اور ٹن پیک اشیاء ، مرغن غذائیں، بھنا ہوا گوشت، دیگر اشیا ء بھی کینسر کے پھیلنا کا سبب ہیں۔مقررین کا کہنا تھا کہ سبزی ، پھلیاں اور فروٹ کھانے کو معمول بننا چاہیے۔

آخر میں ڈائو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے پروفیسر صبا سہیل،ڈاکٹر شبیر احمد،پروفیسر ساجدہ قریشی، پروفیسر صغرا پروین، ڈاکٹر رضا حسین،ڈاکٹر ندیم عباسی، ڈاکٹر احسن وقار، ڈاکٹر آصف لویا میجر جنرل نعیم نقوی، پروفیسر سلیم سومرو، ڈاکٹر عارف جمشیدکو شیلڈ تقسیم کی۔