سال2018میں ریکارڈ 513ارب روپے کے زرعی قرضوں کی تقسیم

منگل 19 فروری 2019 21:03

سال2018میں ریکارڈ 513ارب روپے کے زرعی قرضوں کی تقسیم
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 فروری2019ء) پاکستان میں بینکوں کی جانب سے پہلی بار ایس ایم ای فنانسنگ نے 500 ارب روپے کا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ سال 2018کے اختتام پر ایس ایم ای قرضے 14 فیصد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 513 ارب روپے تک پہنچ گئے جبکہ اس کے مقابلے میں گذشتہ برس کی اسی مدت میں یہ 450 ارب روپے کی سطح پر تھے۔ سال 2018 کے آخری چھ مہینوں (جولائی تا دسمبر) میں ایس ایم ای قرضوں میں نمو زیادہ نمایاں تھی اور اس میں 25 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا۔

2018کے دوران اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں اضافے کے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے ایس ایم ای قرضوں میں اضافے کی افادیت بہت زیادہ ہے۔مالیات کے باضابطہ ذرائع تک ایس ایم ایز کی رسائی بڑھانے پر اسٹیٹ بینک کی مسلسل توجہ کے باعث سال 2018میں ایس ایم ای فنانسنگ میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔

(جاری ہے)

ایس ایم ای قرضوں میں خاصے اضافے کا اہم سبب اسٹیٹ بینک کی جانب سے دسمبر 2017میں جاری کردہ ایس ایم ای مالیات کو فروغ دینے کی پالیسی پر عملدرآمد ہے۔

ایس ایم ای پالیسی میں یہ یقینی بنایا گیا کہ ایس ایم ای قرضوں کے اجرا کے لیے سازگار ضوابطی ماحول فراہم کیا جائے، بینکوں/ ترقیاتی مالی اداروں کے لیے ایس ایم ای قرضوں کے اہداف مقرر کیے جائیں ، بینکوں کو احساس دلایا جائے کہ وہ ایس ایم ای قرضوں کے اجرا کو بھی قابلِ عمل کاروباری ذریعے کے طور پر اپنائیں، بینکوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ ایس ایم ای اداروں کو بینکوں کے قابل بنانے کے لیے غیر مالی مشاورتی خدمات فراہم کریں، ایس ایم ای قرضوں کے لیے طریقہ کار کو سادہ بنایا جائے اور ایس ایم ای اداروں کے لیے اسٹیٹ بینک کی نئی ری فنانس اسکیمیں بینکوں/ ترقیاتی مالی اداروں کے ذریعے متعارف کرائی جائیں۔

اس پالیسی کے تحت مرکزی بینک کے تربیتی ادارے میں اب تک ڈھائی ہزار سے زائد بینکاروں کو متعلقہ تربیت دی جا چکی ہے۔ اسی طرح ایس ایم ای اداروں سمیت بیس ہزار سے زائد متعلقہ فریقوں کو اسٹیٹ بینک اور ایس بی پی بی ایس سی کے توسط سے ملک بھر میں خصوصی پروگراموں کے ذریعے آگاہی دی جا چکی ہے۔اسٹیٹ بینک کے اقدامات کے نتیجے میں بینکوں/ ترقیاتی مالی اداروں کی طرف سے ایس ایم ای کے واجب الادا قرضوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور بینکوں کے ایس ایم ای کے غیر فعال پورٹ فولیو میں گذشتہ سال کی نسبت 2.3 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان بھی ایس ایم ای شعبے کو فروغ دینے کے لیے مکمل تعاون کر رہی ہے۔ معاشی اصلاحات کے حالیہ بل میں ا یس ایم ای اداروں کو اضافی قرضے دینے والے بینکوں کے لیے معقول ٹیکس ترغیبات کا اعلان کیا گیا ہے جو حکومت کے 100 روزہ ایجنڈے میں ایس ایم ای شعبے کی ترقی کے حوالے سے اجاگر کیے گئے اقدامات سے ہم آہنگ ہے۔ اس طرح بینکوں کو ایس ایم ای اداروں کی قرضے کی ضروریات پوری کرنے کی ترغیب متواتر ملتی رہے گی۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایس ایم ای کے شعبے کا ملک کی جی ڈی پی میں حصہ 30 فیصد ہے، غیر زرعی افرادی قوت کے 80 فیصد سے زائد حصے کو یہی شعبہ ملازمت فراہم کرتا ہے جبکہ برآمدی آمدنی میں اس کا حصہ 25 فیصد ہے۔لہٰذا ملازمتوں کی فراہمی اور غربت کے خاتمے کے لیے ایس ایم ای شعبے میں وسیع امکانات موجود ہیں۔

متعلقہ عنوان :