ہم مودی انتظامیہ کی جانب سے کسی فوجی مہم جوئی کو نظر انداز نہیں کر سکتے،شیریں مزاری

ایسا کچھ ہوا تو ہم بھرپور قوت سے جواب دیں گے، پلوامہ میں حالیہ حملہ سے مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی برادری پر زور دینا چاہئے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے کئے گئے جنگی جرائم کو دیکھے،وفاقی وزیر کا مباحثہ سے خطاب

بدھ 20 فروری 2019 22:37

ہم مودی انتظامیہ کی جانب سے کسی فوجی مہم جوئی کو نظر انداز نہیں کر سکتے،شیریں ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 فروری2019ء) فروری وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ ہم مودی انتظامیہ کی جانب سے کسی فوجی مہم جوئی کو نظر انداز نہیں کر سکتے، اگر ایسا کچھ ہوا تو ہم بھرپور قوت سے جواب دیں گے، پلوامہ میں حالیہ حملہ سے مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی برادری پر زور دینا چاہئے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے کئے گئے جنگی جرائم کو دیکھے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو سٹرٹیجک سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کے زیر اہتمام بدلتے ہوئے بین الاقوامی سٹرٹیجک صورتحال سے متعلق مباحثہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس مباحثہ کا مقصد عالمی تزویراتی صورتحال سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

(جاری ہے)

مباحثہ میں صوبہ خیبرپختونخوا اور اسلام آباد سمیت مختلف یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے شرکت کی۔

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے سرد جنگ کے بعد ورلڈ آرڈر کا جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد عالمی سیاست میں نیٹو کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا تاہم اس کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے نیٹو نے اپنی حدود سے باہر کارروائیاں شروع کر دیں، افغانستان اس کی نمایاں مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف ملکوں میں براہ راست مداخلت کی اجازت دینے کیلئے خواہشات کے اتحاد کے اصول پر عمل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی قیادت میں ایک متوازی نظام بھی ہے جس میں اہم ملک امریکہ کے سٹرٹیجک اتحاد کے ذریعے سٹرٹیجک مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیاء کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے رالف پیٹل کے خونی سرحدوں کے عنوان سے ناول کے حوالے دیئے۔

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد گریٹر مشرق وسطیٰ یا وسیع مشرق وسطیٰ کا منصوبہ سامنے آیا جس میں مشرق وسطیٰ کے ممالک میں لبرل ڈیمو کریسی اور اظہار رائے کی آزادی کو فروغ دینے کا دعویٰ کیا گیا جس کے نتیجہ میں عرب سپرنگ شروع ہوا جس سے خطہ میں عدم استحکام پیدا ہوا اور عرب ممالک کمزور ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس عدم استحکام سے طاقت کا انخلاء پیدا ہو گیا جس سے غیر ریاستی عناصر مزید مستحکم ہوئے اور داعش جیسے شدت پسند گروپ واضح طور پر ابھر کر سامنے آئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی صورتحال اور عالمی تزویراتی صورتحال کے پاکستان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، بھارت، امریکہ اور اسرائیل کے درمیان سٹرٹیجک شراکت داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو موجودہ بین الاقوامی نظام میں مختلف آپشن اور مواقع حاصل ہیں، پاکستان افغان امن عمل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور یہ علاقائی ممالک کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے۔

انہوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حالیہ دورہ پاکستان کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کی ہیئت تبدیل ہوئی ہے، کئی دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ریاستی تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عرب دنیا میں کشیدگی میں اضافہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے اور پاکستان ایران اور عرب ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پلوامہ میں حالیہ حملہ سے مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی برادری پر زور دینا چاہئے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے کئے گئے جنگی جرائم کو دیکھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مودی انتظامیہ کی جانب سے کسی فوجی مہم کو نظر انداز نہیں کر سکتے، اگر ایسا کچھ ہوا تو ہم بھرپور قوت سے جواب دیں گے۔ مباحثہ کے آخر میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے شرکاء کے سوالوں کے جواب بھی دیئے۔