بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کی حکومت کو ذمہ دار ہے ،ہیومن رائٹس واچ

جمعرات 21 فروری 2019 21:00

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 فروری2019ء) انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھارت میں گائے کے نام پر ہونے والے قتل عام اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو ذمہ دار قرار دے دیا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ہیومین رائٹس واچ کی جانب سے بھارت میں بڑھتے ہوئے تشدد کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں عالمی تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت میں بڑھتے ہوئے تشدد کو فی الفور روکے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گائے کے گوشت کے استعمال اور جانوروں کے کاروبار سے منسلک تاجروں کو حکمراں جماعت کے رہنما?ں نے اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے نشانہ بنوایا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2015 سے دسمبر 2018 کے درمیان بھارت میں 44 لوگ گائے ذبیحہ یا گوشت کھانے کے الزام میں مارے گئے، مقتولین میں سے بیشتر مسلمان تھے جبکہ پولیس نے بھی حملہ آوروں کی معاونت کی اور حکمراں جماعت نے اس قتل کو عوامی ردعمل قرار دیا۔

(جاری ہے)

جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گانگولی کا کہنا تھا کہ گائے کی آڑ میں انتہا پسند مسلسل اقلیتیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے بلوایں کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی اشتعال انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف بی جے پی حکومت نے کوئی کارروائی کی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومتی پشت پناہی اور مدد سے انتہا پسندوں چار بھارتی ریاستوں ہریانہ، اترپردیش، راجستھان اور جھار کھنڈ میں حملے کیے، جن میں 14 لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔

ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ حکومتی پالیسیوں اور گاؤرکشک گروہوں کے حملوں نے ہندوستان کے مویشی کاروبار اور دیہی زرعی معیشت کو برباد کر دیا، زراعت، دودھ، چمڑا اور گوشت برآمد کرنے والی صنعتوں کو بھی بہت زیادہ نقصانات کا سامنا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ گائے کو بنیاد بنا کر بی جے پی کی ہندو توادی ذیلی تنظیم کے مشتعل کارکنان مسلمانوں، دلت اور قبائلی برادری کو ڈراتے اور انہیں قتل کرتے ہیں۔ہیومن رائٹس واچ نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرے تاکہ تاجروں کو بھی محفوظ ماحول اور قیمتی انسانی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکی